بُری عاتیں (قسط9)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: حصولِ علمِ دین کی رکاوٹیں

موضوع: بری عادتیں (قسط 9)

*بنتِ افضل عطاریہ مدنیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات ذکر کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے، ذیل میں بیان کردہ بُری عادت بھی ایسی ہی ہے جو عِلمِ دین کی برکتوں کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے۔

تادیبی کاروائی

اسلام کی بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اعتدال پسندی اور عفو و درگزر کا حکم دیتا ہے  تو شر انگیزی پر کچھ  سزائیں اور حدود بھی بیان فرماتا ہے جن کا مقصد افراد کی اصلاح اور معاشرے سے بد عنوانی، ظلم و ستم اور جرائم کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے۔جیسا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک روایت میں یہ اصول بیان ہوا  ہے کہ بچے جب دس سال کے ہو جائیں  تو نماز کے معاملے میں ان پر سختی کی جائے۔([1])چنانچہ،

دینی اداروں میں بھی اسٹوڈنٹس کی تعمیر و ترقی  کے لئے کچھ اصول و ضوابط مقرر کئے جاتے ہیں جن کی پابندی کرنا تمام اسٹوڈنٹس کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے اور خلاف ورزی کرنے پر ٹیچرز یا انتظامیہ کو مجبوراً ایسے اسٹوڈنٹس کے خلاف تادیبی کاروائی کرنی پڑتی ہے۔

جن معاملات کی بنا پر اسٹوڈنٹس کے خلاف  تادیبی کاروائی کی جا سکتی ہے ان میں سے چند کا ذکر یہاں  کیا جاتا ہے۔

تادیبی کاروائی کا سبب بننے والی چیزیں:

بعض اسٹوڈنٹس کا پڑھائی میں بالکل سنجیدہ نہ ہونا،ٹیسٹ کے دن بلا وجہ غیر حاضر رہنا،بغیر شدید مجبوری کے کثرت سے چھٹیاں کرنا،امتحانات میں نقل کرنا یا کروانا،ادارے کے نظم و نسق اور اصول و ضوابط کی پروا نہ کرنا،بلکہ اپنی من مانیاں کرنا،کلاس فیلوز کی چیزیں چُرا لینا یا ان کی چیزیں بغیر اجازت استعمال میں لانا،کلاس روم میں شور شرابا کرنا،لڑائی جھگڑا کرنا،کلاس فیلوز کے ساتھ بد زبانی کرنا،دوسروں کی کتابیں،قلم اور جوتیاں چھپا دینا، ادارے کی چیزوں کی حفاظت نہ کرنا،دیواروں یا ڈیسک وغیرہ پر کچھ لکھنا یا رنگ کھرچنا،صفائی ستھرائی کے معاملات کا لحاظ نہ رکھنا،ٹیچرز کی غیر موجودگی میں وائٹ بورڈ یا بلیک بورڈ پہ کچھ لکھ دینا یا تصاویر بنا دینا،دروازوں یا کھڑکیوں کے ہینڈل توڑ دینا، پنکھے اور لائٹس بلا حاجت چلائے رکھنا،کلاس روم میں ڈیسک و ڈائس غفلت و کوتاہی سے استعمال کرنا  وغیرہ۔

یہ ایسے کام ہیں جن کے سبب ادارہ عموماً ایسے اسٹوڈنٹس کے خلاف تادیبی کاروائی کرتا ہے۔اگر ان عادات میں ملوث اسٹوڈنٹس کے لئے تادیبی اقدامات نہ کیے جائیں اور ہر ایک کو اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تو ظاہر ہے کہ بسا اوقات تعلیمی ادارے،کلاس رومز اور دیگر اسٹوڈنٹس بھی ان کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ پاتے،ان کی وجہ سے ادارے کا ماحول خراب ہوتا ہے جبکہ ادارے کی بد نامی الگ ہوتی ہے۔

تادیبی کاروائی کی صورتیں:

ایسے اسٹوڈنٹس کے خلاف مسئلے کی نوعیت کے مطابق تادیبی کاروائی کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً ان کو نوٹس یا تفہیم نامہ تھمانا یا ان کے والدین کو نوٹس بھجوانا یا ادارے میں بلا کر انہیں ان کی تعلیمی اور اخلاقی کمزوری کی اطلاع دینا،ڈانٹ ڈپٹ کرنا،کلاس روم میں کھڑا کر دینا، کلاس روم سے باہر نکال دینا، ہوم ورک میں معمول سے زیادہ اضافہ کر دینا،امتحانات میں نقل کا ثبوت ملنے پر پیپر کچھ دیر کے لئے ضبط کر لینا یا منسوخ کر دینا،معذرت نامہ لکھوانا یا ادارے سےنام خارج کر دینا وغیرہ۔

تادیبی کاروائی کے بعد اسٹوڈنٹس کا رویہ:

ادارہ جب اس طرح کی کوئی بھی تادیبی کاروائی کرتا ہے تو عام طور نادان اسٹوڈنٹس اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں،اس سزا کو اپنی توہین سمجھنے لگتے ہیں، ٹیچرز اور انتظامیہ سے بد ظن ہو جاتے اور منفی رویہ اختیار کر لیتے ہیں،ٹیچرز کے ادب و احترام اور مقام و مرتبے کو بھول کر بد تمیزی پر اتر آتے اور بد زبانی کرتے ہیں۔

نیز ادارے کے دیگر اسٹوڈنٹس کا ذہن بھی خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میرے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے، مجھے کلاس روم سے بلا وجہ بے دخل کر دیا گیا ہے،مجھے خواہ مخواہ کمرۂ امتحان سے باہر کیا ہوا ہے،ان سے اپنا گھر نہیں سنبھلتا تو ادارہ کیا خاک سنبھالیں گے!یہ لوگ دین کا نام استعمال کر کے دین کو بدنام کر رہے ہیں،پتا نہیں! ان نا اہلوں کو کس نے نظامت یا تدریس کا منصب دے دیا!وغیرہ۔

یاد رکھئے!ٹیچرز کبھی بھی اپنے اسٹوڈنٹس سے نفرت کرتے ہیں نہ بغض و کینہ رکھتے ہیں، بلکہ ہمیشہ ان کی ترقی و بھلائی کے خواہش مند ہوتے ہیں،ان کی ڈانٹ ڈپٹ اور سزا کا مقصد بھی اصلاح کرنا ہی ہوتا ہے اور وہ سزا بھی ان کی بہتری کے لئے ہی دیتے ہیں۔مشہور محاورہ بھی ہے کہ اگر ناک پر مکھی بیٹھ جائے تو مکھی اُڑائی جاتی ہے ناک نہیں کاٹی جاتی۔لہٰذا ایسے حالات میں اسٹوڈنٹس کو چاہئے کہ توجہ دلانے پہ اپنی غلطی کا اعتراف کر لیں،ٹیچرز اور انتظامیہ کی غیبتیں کرنے کے بجائے ہاتھ جوڑ کر لجاجت کے ساتھ معذرت کر لیں، آئندہ کے لئے بری عادتیں چھوڑنے کا پکا ارادہ کر لیں اور  ٹیچرز کی تادیبی کاروائی سے بد ظن ہو کر اپنے دینی تعلیمی اور علمی ماحول کو چھوڑنے کی راہ ہرگز نہ اپنائیں،اس کے علاوہ بری عادتوں کو چھوڑ کر ادارے کے نظم و ضبط اور اصولوں کی پابندی کی کوشش کریں،کلاس روم کے آداب کا لحاظ رکھیں، ٹیچرز  کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم کر لیں،کلاس فیلوز کی عزتِ نفس کا خیال رکھیں۔نیز اگر ان کے ساتھ کبھی کوئی ناگوار معاملہ پیش آ جائے تو صبر و تحمل اور عفو و در گزر سے کام لینے کی کوشش کریں کہ یہی وہ سوچ ہے جو ہمارے امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ اپنے مدنی مذاکروں اور اپنی تحریروں کے ذریعے ہم تک پہنچاتے رہتے ہیں۔چنانچہ

اسٹوڈنٹس اور نیک اعمال کا رسالہ:

امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ نے دینی طلبہ و طالبات کو بری عادات سے دور رکھنے اور ان کی عملی،تعلیمی اور اخلاقی ترقی کو پروان چڑھانے کے لئے نیک اعمال کے رسالے کا زبردست تحفہ عطا فرمایا ہے۔دینی طلبہ کو عطا کردہ 92 نیک اعمال کے رسالے میں شامل نیک عمل نمبر 29 میں ہے:کیا آج آپ نے استاد یا منتظمین کی کوئی بات ناگوار گزرنے پر صبر کیا یا معاذَ اللہ دوسروں پر اس کا اظہار کرنے کی نادانی کر بیٹھے؟(مدرسے کے انتظامات کی کمزوریوں کا بیان بلا مصلحتِ شرعی انتظامیہ کے علاوہ کسی اور کے آگے کرنا بہت بری بات ہے)۔جبکہ دینی طالبات کو عطا کردہ 83 نیک اعمال کے رسالے میں شامل نیک عمل نمبر  28 میں ہے کہ کیا آج آپ نے استانی صاحبہ یا ناظمہ وغیرہ کی کوئی بات ناگوار گزرنے پر صبر کیا،یا معاذَ اللہ دوسروں پر اظہار کرنے کی نادانی کر بیٹھیں؟(اپنے تعلیمی ادارے کی کمزوری کا بیان بلا مصلحتِ شرعی انتظامیہ کے علاوہ کسی اور کے آگے کرنا بہت بری بات ہے)

اگر دینی طلبہ و طالبات نیک اعمال کے رسالے کے مطابق اپنے معمولاتِ زندگی کو ڈھال لیں گے تو علم و عمل اور اخلاق و کردار میں خوب ترقی ملےگی۔کیونکہ یہ چیزیں استقامت کا سبب بنتی ہیں۔جبکہ بسا اوقات بری عادتوں کی وجہ سے حصولِ علم کے سلسلے کو جاری رکھنا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔اللہ کریم علمِ دین کی راہ میں رکاوٹ بننے والی تمام بری عادتوں سے دینی طلبہ و طالبات کی حفاظت فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز یزمان بہاولپور



[1]  ابو داود، 1/208،  حدیث:495


Share