سلسلہ: رسم ورواج
موضوع: شادی کے بعد کی دیگر رسومات
*بنتِ منصور عطاریہ مدنیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ:
شادی کی رسموں کا ذکر جاری ہے،چنانچہ اس سلسلے کی آخری قسط پیشِ خدمت ہے:
چوتھی کی رسم:
شادی کے بعد بعض جگہوں پر ایک رسم چوتھی کے نام سے کی جاتی ہے، جو عموماً شادی کے چوتھے روز ہوتی ہے، اسے چوتھی کھیلنا یا چوتھی کی رسم منانا بھی کہتے ہیں۔ایک مشہور اردو لغت میں چوتھی کھیلنے یا چوتھی منانے کا مطلب یہ لکھا ہے کہ شادی کے چوتھے روز دلہن کے گھرجا کر دولہا دلہن اور ان کے رشتہ داروں کا ایک دوسرے کو پھولوں کی چھڑیوں سے مارنا اور پھل اور ترکاریاں ایک دوسرے پر مارنا اور آپس میں ہنسی مذاق کرنا۔ایک مخصوص خطے میں چوتھی کی رسم یوں کی جاتی ہے کہ رخصت کے دوسرے روز دلہن کے میکے سے کم و بیش تیس چالیس افراد دولہے کے گھر آتے ہیں،جہاں ان کی پُرتکلف دعوت ہوتی ہے،کھانے کے بعد میٹھے چاول کے تھال میں اپنی حیثیت سے زیادہ روپیہ رکھتے ہیں، یہ روپیہ بھی دلہن والوں کی طرف سے چندہ کر کے بطور نیوتا دیا جاتا ہے، پھر دلہن کو اپنے ساتھ میکے لے جاتے ہیں۔
پھر چوتھے روز دولہا اور اس کے گھر والے دلہن کے ہاں جاتے اور ساتھ سبز ترکاریاں،آلو بینگن وغیرہ اور کچھ مٹھائی بالخصوص لڈو ضرور لے جاتے ہیں۔وہاں ان کی مہمان نوازی کی خاطر پتلی کھیر تیار کی ہوتی ہے،ایک ٹوٹی کرسی پر کھیر سے بھرا تھال رکھا جاتا ہے جس کو سفید چادر سے ڈھک دیتے ہیں۔جب دولہا آتا ہے تو اس کو وہی کرسی پیش کی جاتی ہے جس پر دولہا بے خبر ہو کر بیٹھتا ہے اور بیٹھتے ہی سارے کپڑے کھیر سے خراب ہو جاتے ہیں اور اس پر ہنسی اڑائی جاتی ہے،پھر دلہن والے دولہے والوں کے کپڑے اور منہ خوب اچھی طرح خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، دولہے والے بچاؤ کرتے ہیں اور اسی میں خوب دل لگی کی جاتی ہے۔ جب اس بیہودہ،رسم کا اختتام ہوتا ہے تو کھانا پیش کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد ایک چوکی پر دولہا دلہن کو آمنے سامنے بٹھایا جاتا ہے اور وہ لڈو جو دولہے والے لاتے ہیں وہ دولہا،دلہن کی جانب اور دلہن،دولہے کی جانب پھینکتی ہے، جب سات چکر پورے ہو جاتے ہیں تب سب لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں کہ وہ ترکاریاں اور آلو وغیرہ جو دولہے والے لائے، ان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد ایک دوسرے کو اس سے مارتے ہیں اسی طرح یہ خرافات جاری رہتی ہے۔ پھر دولہے والے دلہن کو ساتھ لے آتے ہیں۔
کنگنا(گانے ) کی رسم:
شادی کے بعد کی ایک رسم کنگنا کھولنا بھی ہے جس میں دلہن دولہے کے ہاتھ پر بندھے ہوئے دھاگوں کی گرہیں کھولتی ہے،اس کو کنگنا کھولنے کی رسم کہا جاتا ہے۔چنانچہ بعض جگہوں پر جب دلہن سسرال واپس آتی ہے تو یہ رسم ادا کی جاتی ہے،اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دولہے نے پہلے سے ہی کنگنا کی گرہیں سخت کر رکھی ہوتی ہیں، اب دلہن کا کام کسی بھی طرح اس کو کھولنا ہوتا ہے،وہ اس کے لئے سخت محنت میں لگی ہوتی ہے جب بمشکل یہ کھل جاتا ہے تو سب خوشی و مستی میں ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہیں اور اس میں بڑا ماہر وہ مانا جاتا ہے جو کسی شریف آدمی کو دھوکے سے ادھر بلا کر پانی میں بھگو دے اور اس کے خفا ہونے پر موجود لوگ خوشی سے تالیاں بجاتے ہیں۔اس رسم میں پانی و وقت کے خوب اسراف،مسلمان کو دھوکا دینے اور اس کو تکلیف دے کر اس پر خوش ہونے کے متعلق مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ رسمیں ساری ہندوانی ہیں جس میں عورتوں مردوں کا اختلاط یعنی میل جول ہے، یہ بھی حرام اور کھیر اور ترکاریوں کی بربادی ہے، یہ بھی حرام ہے،مسلمانوں کے کپڑے خراب کرکے ان کو تکلیف پہنچانی یہ بھی حرام،پھر چوتھی میں ایک دوسرے کی مرمت کرنا تکلیف دینا یہ بھی حرام کہ اس میں دل شکنی بھی ہے اور سرشکنی بھی۔ ([1]) لہٰذا ایسی بیکار رسموں کو ختم کرنے ہی میں عافیت ہے۔
سہرا کھولنے کی رسم:
بعض جگہوں پر قریب کسی سمندر،دریا، تالاب یا غیرآباد کنوئیں میں سہرا ٹھنڈا کیا جاتا ہے، مگر یہ رسم اتنی سادہ نہیں ہوتی بلکہ اس میں بھی کئی خرافات شامل ہوتی ہیں، مثلاً دریا یا سمندر میں ڈالنے کے لئے پہلے سے ہی پکنک پلان بنایا جاتا ہے، جس میں خا ندان کے محرم و نامحرم سب مرد و عورت اکٹھے ہوتے ہیں اور راستے بھر گانا بجانا اور ہلہ گلہ ہوتا ہے۔ پھر کچھ جاہل لوگ دریا کو سلام کر کے اس میں سہرا ٹھنڈا کرتے ہیں اور پھر کچھ لوگ میٹھے چاول پکاکر اس پر خواجہ خضر کی فاتحہ دلاتے ہیں، تب کہیں جاکر یہ رسم مکمل ہوتی ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کی فاتحہ دلوانے کے حوالے سے مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت خضر علیہ السلام کے نام سے فاتحہ دلوانا جائز و درست ہے (کہ ایصالِ ثواب مُردوں کے ساتھ خاص نہیں زندوں کے لئے بھی ہوسکتا ہے)مگر اس کے لئے عورتوں کو تالاب وغیرہ پر جانا اور کشتی چھوڑنا جہالت اور تَشَبُّہ ہنود(یعنی ہندؤں سے مشابہت) ہے اس سے بچنا لازم ہے۔ ان کی فاتحہ کے لئے تالاب یا ندی کے کنارے نہ جائیں بلکہ گھر ہی پر فاتحہ دلائیں کہ گھر میں اللہ و رسول کا ذکر ہونا باعثِ برکت و رحمت ہے۔ ([2])
کھیر پوری:
جب دلہن پہلی مرتبہ سسرال میں کھانا بناتی ہے تو خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ کسی سوئیٹ ڈش سے کھانا پکانے کا آغاز کرے،اس پر اسے ساس سسر کی طرف سے تحفے میں پیسے بھی دیئے جاتے ہیں اور اس کو اچھا شگون شمار کیا جاتا ہے کہ میٹھا پکائے گی تو سب کے ساتھ میٹھی رہے گی اور خدانخواستہ اگر نمکین پکا لے تو لوگ اس کو برا جانتے ہیں کہ اب اس کی کسی سے نہ بنے گی، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ بعض جگہ دلہن سے کھیر اور پوریاں بنوا کر تقسیم کی جاتی ہیں اور اس کو کھیر پوری کی رسم کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ اس پر بھی کثیر رقم خرچ کر دیتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں، ہاں !اگر اس پر حضور غوثِ پاک اور بزرگانِ دین کی نیاز و ختم دلا دی جائے تو بہت اچھا ہے کہ ثواب و برکت ہاتھ آئے گا۔([3])
چالا نامی رسم:
ایک رسم چالا کے نام سے بھی کی جاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ نئی دلہن کا شادی کے بعد سسرال سے چار بار میکے جانا۔([4])اس کو بھی بعض خاندانوں میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ ضروری نہیں اور اگر کی جائے تو بھی کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ شوہر کی اجازت سے جائے اور دیگر خرافات نہ ہوں۔
گود بھرائی/ Baby shower:
جب لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو اس کے ساتویں یا آٹھویں ماہ یہ تقریب منعقد ہوتی ہے، اس میں لڑکی دلہن کی طرح تیار ہو کر بیٹھ جاتی ہے اور اس پر چادر یا دوپٹے کا پلو پھیلا دیا جاتا ہے جس میں پھل، ڈرائی فروٹس یا رقم وغیرہ ڈالے جاتے ہیں، پھر اس کو خوب دعاؤں سے نوازا جاتا ہے۔ اس کو گود بھرائی کی رسم کہتے ہیں۔اس میں بےپردگی اور دیگر خرافات وغیرہ نہ ہوں تو یہ ایک اچھی چیز ہے، اس میں حرج نہیں۔
یہ رسم مختلف علاقوں میں مختلف انداز سے کی جاتی ہے،بعض جگہ محفلِ میلاد اور قرآن خوانی و نیاز کا اہتمام کیا جاتا ہے جو نزولِ رحمت و برکت کا سبب ہے۔مگر آج کل کے دور میں اس کے متعلق ایک نیا ٹرینڈ چل پڑا ہے جو کہ Baby showerکے نام سے موسوم ہے اس میں مختلف قسم کے گیمز وغیرہ کھیلے جاتے ہیں جو اس بنیاد پر ہوتے ہیں کہ پیدا ہونے والا لڑکا ہے یا لڑکی اسے Gender Reveal Games کہتے ہیں۔بعض کے ہاں باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ چونکہ یہ انگریزوں سے اختیار کیا گیا طریقہ ہے لہٰذا اس میں ان کی خرافات تو لازمی ہوں گی۔ مردوں اور عورتوں کے جھرمٹ میں حاملہ لڑکی نے ایسا گاؤن نما ڈریس پہنا ہوتا ہے جس میں حمل کے سبب بدن کی ہیئت مزید نمایاں ہوتی ہے،ایسی صورت میں بےپردگی سے بچنا کیونکر ممکن ہے؟اوپر سے گانے بجانے کی ترکیب الامان و الحفیظ۔
باقی رہا بچے کی جنس معلوم کرنا تو یاد رکھئے کہ اگر صرف بچے کی جنس معلوم کرنے کے لئے الٹرا ساؤنڈ کروایا جائے تو حرام و گناہ ہے اور اگر علاج کی غرض سے ڈاکٹر کی ہدایت پر الٹرا ساؤنڈ کروایا اسی کے ساتھ ہی جنس معلوم ہوئی تو حرج نہیں۔([5])امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:اگر مرض کا علاج مقصود ہے تو اس کی تشخیص (یعنی پہچان) کیلئے بےپردگی ہو رہی ہو تب بھی ماہر طبیب کے کہنے پر عورت کسی مسلمان عورت(اور نہ ملے تو مجبوری کی صورت میں مرد وغیرہ) کے ذریعے الٹراساؤنڈ کرواسکتی ہے۔لیکن بچہ ہے یا بچی اس کی معلومات حاصل کرنے کا تعلق چونکہ علاج سے نہیں اور الٹراساؤنڈ میں عورت کے ستر(یعنی ان اعضا مثلاً ناف کے نیچے کے حصے) کی بےپردگی ہوتی ہے لہٰذا یہ کام مرد تو مرد کسی مسلمان عورت سے بھی کروانا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔([6]) الغرض شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے گود بھرائی کی رسم کرنے میں کچھ حرج نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* جوہر ٹاؤن جے بلاک لاہور
[1] اسلامی زندگی،ص63 تا 65
[2] فتاویٰ فقیہ ملت، 1/292
[3] اسلامی زندگی، ص 66 مفہوماً
[4] فیروز اللغات ، ص 513
[5] دار الافتاء اہلسنت غیر مطبوعہ، فتویٰ نمبر: Web-697
[6] زندہ بیٹی کنویں میں پھینک دی، ص 14، 15
Comments