حضور ﷺ کی اپنی نواسیوں سے محبت
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: اخلاقِ نبوی

موضوع: حضور کی اپنی نواسیوں سے محبت

(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 35ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کئے جا رہے ہیں۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*بنتِ    مدثر عطاریہ   (اول پوزیشن)

نبی کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی مبارک زندگی کے متعلق قرآنِ کریم میں ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب: 21)

ترجمہ:بیشک تمہارے لئے اللہ کے رسول میں  بہترین نمونہ موجود ہے۔

حکیمُ الاُمت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃ اللہِ علیہ  نے اپنی کتاب شانِ حبیبُ الرحمن میں اس آیت پر بہت پیارا کلام فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسولِ پاک  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی مبارک ذات ہردرجے اور ہر مرتبے کے انسان کے لئے نمونہ ہے۔مزید فرماتے ہیں:اگر کسی کی زندگی اہل و عیال کی زندگی ہے تو وہ یہ خیال کرے کہ میری تو ایک یا دو یا زیادہ سے زیادہ چار بیویاں ہیں اور کچھ اولاد مگر محبوب  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی 9 بیویاں ہیں،اولاد اور اولاد کی اولاد،غلام باندیاں،مُتَوَسِّلِیْن (متعلقین میں شامل لوگ)اور مہمانوں کا ہجوم ہے، پھر کس طرح ان سے برتاؤ فرمایا اور اسی کے ساتھ ساتھ کس طرح رب کی یاد فرمائی۔([1])

حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے سب کو ان کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے شفقتوں سے نوازاخصوصا ًبیٹیوں کے فضائل بیان فرما کر عرب کے معاشرے کو وحشت و بربریت سے نکالا اور عملی طور پر بھی اس کا مظاہرہ فرمایا۔اپنی شہزادیوں بلکہ نواسیوں کو بھی پیار و محبت سے نوازا۔سیرتِ نبوی کی کتب میں نبی کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی چار نواسیوں کا ذکر ملتا ہے:سیدہ زینب،سیدہ اُمامہ،سیدہ اُمِّ کلثوم اور سیدہ رُقَیَّہ    رضی اللہُ عنہن  ۔سیدہ اُمامہ نبی کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی بڑی شہزادی حضرت بی بی زینب    رضی اللہُ عنہا   کی بیٹی ہیں جبکہ بقیہ تینوں خاتونِ جنت بی بی فاطمہ    رضی اللہُ عنہا   کی اولادِ پاک ہیں۔آئیے! حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے گلشنِ نبوت کی مہکتی کلیوں کے ساتھ محبت و شفقت بھرے انداز کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کیجئے:

سیدہ اُمامہ    رضی اللہُ عنہا :

ایک مرتبہ نجاشی بادشاہ نے رسولِ کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی خدمتِ با برکت میں کچھ زیورات کی سوغات بھیجی  جن میں ایک قیمتی حبشی نگینے والی انگوٹھی بھی تھی۔ اللہ پاک کے پیارے و آخری نبی  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے اس انگوٹھی کو چھڑی یا مبارک انگلی سے مس کیا یعنی چھوا اور نواسی اُمامہ بنتِ ابو العاص    رضی اللہُ عنہا   کو بلا کر فرمایا:اے چھوٹی بچی! اسے پہن لو۔([2])   اسی طرح ایک بار ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار کسی نے حضور کو پیش کیا جس کی خوبصورتی دیکھ کر حضور کی تمام مقدس بیویاں حیران رہ گئیں۔حضور نے جب یہ فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو تمام مقدس بیویوں نے یہ خیال کر لیا کہ یقیناً یہ ہار بی بی عائشہ    رضی اللہُ عنہا   کو عطا فرمائیں گے مگر  حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے اپنی پیاری نواسی حضرت امامہ کو قریب بلا کر اپنے مبارک ہاتھ سے ان  کے گلے میں ڈال دیا۔([3])

 کندھوں پر سوار فرما لیا:

حضرت ابو قتادہ  رضی اللہُ عنہ  روایت کرتے ہیں، اللہ پاک کے محبوب  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  ہمارے پاس تشریف لائے تو اپنی نواسی حضرت اُمامہ بنتِ ابو العاص  رضی اللہُ عنہا   کو اپنے مبارک کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے وقت انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔([4])

سبحان اللہ!کیا پیار و محبت بھرا انداز ہے!اپنی نواسیوں سے محبت کا یہ انداز حضور کی مبارک زندگی کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ وصالِ ظاہری کے بعد بھی اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ چنانچہ جب نواسۂ رسول حضرت امام حسین  رضی اللہُ عنہ کی شہادت کے بعد اہلِ بیت کا کاروان طرح طرح کے مصائب سہتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچا تو نواسیِ مصطفےٰ سیدہ زینب    رضی اللہُ عنہا   فریاد کرتی ہوئی مدینے شریف میں داخل ہوئیں،پھر اہلِ حرم کے سوا کسی کو نہیں معلوم کہ حجرۂ عائشہ میں کیا ہوا۔نواسی صاحبہ کی اشک بار آنکھوں پر رحمت کی آستین کس طرح رکھی گئی؟کربلا کے پسِ منظر میں مشیتِ الٰہی کا سر بستہ راز کن لفظوں میں سمجھایا گیا؟([5]) یقیناً سیدہ زینب کا یوں پکار پکار کر اپنے نانا جان  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  سے فریاد کرنا جہاں ان کے عشقِ رسول پر دلالت کرتا ہے وہیں نانا جان  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کا اپنی پیاری نواسی سے محبت بھرے تعلق کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔اللہ پاک ہمیں بھی درسِ سیرتِ مصطفےٰ پر عمل کرتے ہوئے اپنی آل اولاد کے ساتھ شفقت سے پیش آنے کی توفیق عطافرمائے۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

بنتِ    شکیل   (درجہ:رابعہ، جامعۃ المدینہ گرلز صدر راولپنڈی)

ہمارے معاشرے میں نواسے نواسیوں سے محبت میں نانا نانی کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے کیونکہ نانا  نانی اپنے نواسے نواسیوں سے والہانہ محبت کرتے اور ان کے بہترین و اچھے دوست اور غم خوار بھی ہوتے ہیں۔آقاکریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بطور نانا جان اپنی شہزادیوں کے بچوں بچیوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔نواسے تو اپنے نانا جان کے لختِ جگر تھے ہی لیکن نواسیاں بھی اپنے نانا جان کی شفقتیں لینے میں پیچھے نہ تھیں۔

اللہ پاک کے آخری نبی  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی چار نواسیاں تھیں:حضرت اُمامہ،حضرت بی بی رقیہ، حضرت زینب اور حضرت اُمِّ کلثوم     رضی اللہُ عنہن  ۔یہ سب کی سب اپنے نانا جان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔آئیے!پیارے نانا جان کی اپنی نواسیوں سے محبت بھرے انداز کی جھلکیاں ملاحظہ کیجئے:

نواسی اپنے نانا جان کے مبارک کندھے پر:

شہزادیِ رسول بی بی زینب    رضی اللہُ عنہا   کی بیٹی کا نام اُ مامہ تھا جو حضور کی سب سے بڑی نواسی بھی تھیں،حضور کو ان سے بڑی محبت تھی۔آپ ان کو اپنے مبارک  کندھوں پر بٹھا کر مسجد ِ نبوی میں تشریف لے جاتے تھے، جیسا کہ حضرت ابو قتادہ  رضی اللہُ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ  اپنی نواسی اُمامہ بنتِ ابو العاص    رضی اللہُ عنہا   کو اپنے مبارَک کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔ پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں  جاتےوقت انہیں  اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں  اُٹھا لیتے۔([6])

سونے کا خوبصورت ہار:

 ایک مرتبہ کسی نے  حضور کو ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا  ہار تحفے میں پیش    کیا جس کی خوبصورتی دیکھ کر حضور کی تمام بیویاں حیران رہ گئیں۔حضور  نے جب یہ فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔تو تمام  مقدس بیویوں نےیہ خیال کر لیا کہ یقینا ًیہ ہار اب بی بی  عائشہ کو عطا فرمائیں گے مگر  حضور  نے حضرت بی بی  اُ مامہ    رضی اللہُ عنہا   کو قریب بلایا اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے مبارک ہاتھ سے یہ ہار ڈال دیا۔([7])

لاڈلی شہزادی کی لاڈلی بیٹیاں:

آقا کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی لاڈلی شہزادی خاتونِ جنت فاطمۃ الزاہرا    رضی اللہُ عنہا   کی تین صاحبزادیاں تھیں۔اُمُّ المصائب حضرت زینب    رضی اللہُ عنہا   سب سے بڑی شہزادی تھیں جنہوں نے واقعۂ کربلا کے بعد بہت مصیبتیں برداشت کی تھیں۔ دوسری صاحبزادی حضرت بی بی رُقیہ تھیں اور سب سے چھوٹی شہزادی حضرت اُمِّ کلثوم    رضی اللہُ عنہن  تھیں۔آقا کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنی ان تینوں نواسیوں سے بے حد محبت و الفت تھی۔([8])

نواسی کو انگوٹھی عطا فرمائی:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ    رضی اللہُ عنہا   فرماتی ہیں:نجاشی بادشاہ کی جانب سے حضور کی خدمت میں کچھ زیورات کی سوغات پیش کی گئی جن میں ایک حبشی نگینے والی انگوٹھی بھی تھی۔اللہ پاک کے پیارے نبی  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے اس انگوٹھی کو چھڑی یا مبارک انگلی سے چھوا  اور اپنی بڑی شہزادی زینب کی پیاری بیٹی یعنی اپنی نواسی اُمامہ    رضی اللہُ عنہا   کو بلا کر فرمایا: اے چھوٹی بچی! اسے پہن لو ۔([9])

یہ سب واقعات ان لوگوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں جو اپنی بچیوں،  نواسیوں، پوتیوں سے محبت نہیں کرتے اور ان کے ساتھ شفقت بھرا رویہ اختیار نہیں کرتے۔ہم سب کو چاہیے کہ خاتمُ النبیین  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیٹیوں، نواسیوں اور پوتیوں کو شفقتوں اور محبتوں کے مہکتے گلشن میں پروان چڑھائیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(درجہ:خامسہ ، جامعۃ المدینہ گرلز، صدر راولپنڈی کینٹ)



[1] شانِ حبیب الرحمن،ص159،158ملتقطاً

[2] ابو داود، 4/126 ، حدیث:4235

[3] شرح زرقانی ، 4/321

[4] بخاری، 4/ 100، حدیث:5996

[5] لالہ زار، ص 263، 264ملخصاً

[6] بخاری، 4/100، حدیث:5996

[7] شرح زرقانی ، 4/321

[8] شان خاتون جنت، ص261تا264 ماخوذاً

[9] ابوداود، 4/126، حدیث:4235


Share