اِستخارہ  (قسط 01)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: شرحِ حدیث

موضوع: استخارہ(قسط1)

*بِنتِ کریم عطاریہ مدنیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت جابر بن عبدُ ا  رضی اللہُ عنہما  سے مروی ہے کہ حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  ہم کو تمام اُمور میں  استخارہ تعلیم فرماتے جیسے قرآنِ پاک کی سورت تعلیم فرماتے تھے۔([1])

شرحِ حدیث

حکیمُ الْاُمَّت حضرت  مفتی احمد یار خان  رحمۃ اللہِ علیہ  اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:یعنی نمازِ استخارہ ایسے اہتمام سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت۔([2])

استخارہ کے معنی ہیں:خیر مانگنا یا کسی سے بھلائی کا مشورہ کرنا،   چونکہ اس دعا و نماز میں بندہ اللہ پاک سے گویا مشورہ کرتا ہے کہ فلاں کام کروں یا نہ کروں اسی لئے اسے استخارہ کہتے ہیں۔([3])

 استخارہ در حقیقت نیک شگون لینے کا ایک جائز طریقہ ہے  جس کی ترغیب احادیثِ مبارکہ میں بھی موجود ہے۔ صحابہ کرام علیہمُ الرّضوان ہر کام سے پہلے استخارہ کرتے تھے۔جیسا کہ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے مرضِ وصال میں فرمایا:آج میں نے خلافت کے معاملات کو حوالے کرنے کے لئے باربار استخارہ کیا ہے۔([4]) اگرچہ اس روایت سے یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ استخارہ کتنی بار کیا گیا، مگر بہتر یہ ہے کہ سات بار استخارہ کرے ([5])جیسا کہ ایک حدیث پاک میں  بھی ہے:اے انس!جب تو کسی کام کا ارادہ کرے تو اپنے رب سے اس میں  سات بار استخارہ کر، پھر  غور کر کہ تیرے دل میں کیا گزرا کہ بے شک اسی میں  خیر ہے۔([6])البتہ!بہارِ شریعت میں ہے:استخارہ کا وقت اس وقت تک ہے کہ ایک طرف رائے پوری جم نہ چکی ہو۔([7])نیز استخارے کے آداب میں سے ہے کہ استخارہ ایسے کام کے متعلق کیا جائے جس کے کرنے کے بارے میں طبیعت کا کسی طرف میلان نہ ہو کیونکہ اگر کسی ایک طرف رغبت پیدا ہو چکی ہو گی تو پھر استخارے کی مدد سے صحیح صورتحال کا واضح ہونا بہت مشکل ہو جائے گا۔([8])

استخارہ کرنے کا فائدہ اور نہ کرنے کا نقصان:

استخارہ کرنے والا مسلمان کبھی نقصان میں نہیں رہتا کیونکہ وہ تو درحقیقت اللہ پاک سے مشورہ طلب کر رہا ہوتا ہے اور اللہ پاک سے مشورہ لینے والا بھلا کیسے نقصان میں رہ سکتا ہے!جبکہ استخارہ نہ کرنے والا مسلمان نقصان اٹھاتا ہے۔جیسا کہ حضورِ پاک  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کا فرمانِ عالیشان ہے:جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں ہو گا اور جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہیں ہو گا اور جس نے میانہ روی کی وہ کنگال نہیں ہوگا۔([9])

نبی کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے فرمایا:بندے کی بدبختی میں  سے ہے کہ وہ اللہ پاک سے استخارہ کرنا چھوڑ دے۔([10])

استخارہ کن کاموں کے بارے میں ہو گا؟

استخارہ صرف ان کاموں کے بارے میں ہوسکتا ہے جو ہر مسلمان کی رائے پر چھوڑے گئے ہیں،مثلاً تجارت یا ملازمت میں سے کس کا انتخاب کیا جائے؟سفر کے لئے کون سا دن یا کون سا ذریعہ مناسب رہے گا؟مکان و دکان کی خریداری مفید ہو گی یا نہیں؟ کون سے علاقے میں رہائش مناسب ہو گی؟شادی کہاں  کی جائے؟ وغیرہ وغیرہ۔

کن کاموں کے بارے میں استخارہ نہیں ہو سکتا؟

* جن کاموں  کے متعلق شریعت نے واضح احکام بیان کر دئیے ہیں ان میں استخارہ نہیں  ہوتا جیسے پنج وقتہ فرض نمازیں،مالدار ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی،   رمضان المبارک کے روزوں وغیرہ کے متعلق استخارہ نہیں کیا جائے گا کہ میں نماز پڑھوں  یا نہ پڑھوں؟زکوٰۃ ادا کروں یا نہ کروں؟ وغیرہ۔

* حج، جہاد اور دیگر نیک کاموں میں نفسِ فعل کیلئے استخارہ نہیں ہو سکتا۔ہاں!تعیینِ وقت کے لئے کر سکتے ہیں۔([11])

* گناہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق استخارہ نہیں کر سکتے کہ گناہ سے تو ہر حال میں بچنا ہی ہے۔جیسا کہ نزہۃ القاری میں ہے:استخارہ کی نماز مستحب ہے،   بشرطیکہ وہ عبادات نہ ہوں یا منہیات(شرعاًممنوع کام)نہ ہوں۔اس لئے کہ عبادات کی ادائیگی اور منہیات سے بچنا مطلقاً خیر ہے۔([12])

* استخارہ کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ وہ کام جائز ہو،   نا جائز کام کے لئے استخارہ نہیں کیا جائے گا۔جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃ اللہِ علیہ استخارے سے متعلق حدیثِ پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:بشرطیکہ وہ کام نہ حرام ہو،نہ فرض و واجب اور نہ روز مرہ کا عادی کام،لہٰذا نماز پڑھنے حج کرنے یا کھانا کھانے پانی پینے پر استخارہ نہیں۔([13])

حرام کام کے لئے استخارہ کرنے پر بلعم بن باعوراء کا انجام:

گناہ اور حرام کام کے لئے استخارہ کرنے والوں کے لئے بلعم بن باعوراء کے واقعے میں عبرت کا سامان موجود ہے۔چنانچہ جب حضرت موسیٰ  علیہ السلام  نے جَبّارین سے جنگ کا ارادہ کیا اور سرزمینِ شام میں نزول فرمایا تو بلعم بن باعوراء کی قوم اس کے پاس آئی اور اس سے حضرت موسیٰ  علیہ السلام  اور ان کی قوم کے خلاف بد دعا کرنے کے لئے کہا۔قوم کی بات سن کر بلعم نے کہا:افسوس ہے تم پر!حضرت موسیٰ  علیہ السلام اللہ پاک کے نبی ہیں ،   اُن کے ساتھ فرشتے اور ا یمان دار لوگ ہیں،   اس لئے میں ان کے خلاف کیسے بد دعا کر سکتا ہوں!قوم نے جب گریہ و زاری کے ساتھ مسلسل اصرار کیا تو بلعم نے کہا:اچھا!میں پہلے اپنے رب کی مرضی معلوم کر لوں۔بلعم کا یہی طریقہ تھا کہ جب کبھی کوئی دعا کرتا تو پہلے مرضی ِالٰہی معلوم کر لیتا اور خواب میں اس کا جواب مل جاتا،چنانچہ اس مرتبہ اس کو یہ جواب ملا کہ حضرت موسیٰ  علیہ السلام  اور ان کے ساتھیوں کے خلاف دعا نہ کرنا۔لہٰذا اس نے قوم سے کہہ دیا کہ میں نے اپنے رب سے اجازت چاہی تھی مگر میرے رب نے ان کے خلاف بد دعا کرنے کی ممانعت فرما  دی ہے۔پھراس کی قوم نے اسے ہدیئے اور نذرانے دیئے جنہیں اس نے قبول کر لیا۔اس کے بعد قوم نے دوبارہ اس سے بد دعا کرنے کی درخواست کی تو دوسری مرتبہ بلعم نے اللہ پاک سے اجازت چاہی۔اب کی بار اس کا کچھ جواب نہ ملا تو اس نے قوم سے کہہ دیا کہ مجھے اس مرتبہ کچھ جواب ہی نہیں ملا۔وہ لوگ کہنے لگے:اگر اللہ پاک کو منظور نہ ہوتا تو وہ پہلے کی طرح دوبارہ بھی صاف منع فرما دیتا،   پھر قوم نے اور بھی زیادہ اصرار کیا یہاں تک کہ وہ ان کی باتوں میں آ گیا اور آخر کار بد دعا کرنے کے لئے اپنی قوم کے ساتھ پہاڑ پر چڑھا۔بلعم جو بد دعا کرتا اللہ  پاک اس کی زبان کو اس کی قوم کی طرف پھیر دیتا تھا اور اپنی قوم کے لئے جو دعائے خیر کرتا تھا توبجائے قوم کے بنی اسرائیل کا نام اس کی زبان پر آتا تھا۔یہ دیکھ کر اس کی قوم نے کہا:اے بلعم!تو یہ کیا کر رہا ہے؟ بنی اسرائیل کے لئے دعا اور ہمارے لئے بد دعا کیو ں کر رہا ہے؟بلعم نے کہا:یہ میرے اختیار کی بات نہیں،   میری زبان میرے قبضے میں نہیں ہے،   اللہ پاک کی قدرت مجھ پر غالب آ گئی ہے۔اتنا کہنے کے بعد اس کی زبان نکل کر اس کے سینے پر لٹک گئی۔اس نے اپنی قوم سے کہا:میری تو دنیا و آخرت دونوں برباد ہو گئیں۔([14])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز خوشبوئے عطار واہ کینٹ



[1] بخاری،   1/ 393 ،   حدیث:1162

[2] مراۃ المناجیح ،   2 /301

[3] مراۃ المناجیح ،   2 /301

[4] قرۃ العینین فی تقبیل الشیخین،   ص95

[5] رد المحتار،   2/570

[6] عجالۃ الراغب المتمنی،   2/677،   حدیث:599

[7]  بہارشریعت،   2 /683،   حصہ:4

[8]  فتح الباری ،   12 /155ملخصاً

[9] معجم اوسط،   5/77،   حدیث:6627

[10]  ترمذی ،   4 / 60 ،   حدیث:2158

[11]  بہار شریعت،   2/ 682،   حصہ:4

[12] نزہۃ القاری،   2/ 695

[13] مراۃ المناجیح ،   2 /301

[14] تفسیر بغوی،   2/179


Share