رمضان المبارک میں رسولُ اللہ کا انداز

باتیں میرے حضور کی

رمضان المبارک میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا انداز

* حافظ حفیظ الرحمٰن عطاری مدنی

ماہنامہ اپریل 2022

ماہِ رمضان اپنی عظمت و برکت ، رحمت و مغفرت ، فضیلت و اہمیت کے اعتبار سے دوسرے تمام مہینوں سے ممتاز ہے۔ یہی وہ ماہ ہے جس میں قراٰنِ مجید کا نزول ہوا ، یہی وہ ماہ ہے جس میں جنّت کے دروازے کھول دیئے جا تے اور جہنّم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں ، ماہِ رمضان کی فضیلت و اہمیت کی وجہ سے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  رمضان کی آمد سے پہلے ہی اس کی تیاری شروع فرما دیتے تھے اور جب رمضانُ المبارک تشریف لے آتا تو آپ کی عبادت و ریاضت ، ذکر و دُعا ، اور تلاوتِ قراٰن میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتاتھا۔

آئیے! رمضانُ المبارک میں معمولاتِ نبوی کے تذکرے سے اپنے قلوب کو منور کرتے ہیں۔

آمدِ رمضان پر مبارک باد دیتے : جب رمضان کا مقدس مہینا اپنی رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتا تو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  صحابۂ کرام کو مبارک باد اور خوشخبری دیتے ۔ حضرت سیّدُنا ابو ہریرہ  رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابہ کو خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : تمہارے پاس برکت والا مہینا آچکا ہے۔ اللہ پاک نے تم پر اس کے روزے فرض فرمائے ہیں اور تمہارے لئے اس مہینے کا قیام(یعنی نمازِ تراویح) سنّت ہے۔ جب ماہِ رمضان آتا ہے تو جنّت کے دروا زے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنّم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں ، شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ [1]

نماز و دعا کی کثرت فرماتے : اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ  رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں : جب ماہِ رمضان تشریف لاتا تو حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا رنگ مبارَک مُتَغَیَّر (یعنی تبدیل) ہوجاتا اور نماز کی کثرت فرماتے اور خوب دُعا ئیں مانگتے۔ [2]

علامہ عبد الرؤف مناوی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : (رنگ متغیر اس لئے ہوجاتا تھا کہ) کہیں کوئی ایسا عارضہ لاحق نہ ہوجائے جس کی وجہ سے اس ماہ میں حقِ عبودیت کی ادائیگی میں کمی واقع ہوجائے ۔ [3]

آخری عشرے میں عبادت کیلئے کمربستہ ہوجاتے : اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صِدّیقہ  رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں : جب ماہِ رمضان آتا تو تاجدارِ رسالت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بیس دن نماز اور نیند کو ملاتے (یعنی نماز اور آرام دونوں کرتے) تھے پس جب آخری عشرہ ہوتا تو اللہ پاک کی عبادت کے لئے کمر بستہ ہوجاتے۔ [4]ایک اور حدیثِ پاک میں ہے کہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی عبادت میں جتنی محنت رمضان کے آخری عشرے میں کیا کرتے تھے اتنی دوسرے ایام میں سے کسی میں نہیں کیا کرتے تھے۔ [5]

تلاوتِ قراٰن اور صدقہ و خیرات کی کثرت فرماتے : تلاوتِ قراٰن اور صدقہ و خیرات کرنا حضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عادتِ مبارکہ کا حصہ تھا ، صدقہ و خیرات کا عالم یہ تھا کہ کوئی سوالی در سے خالی نہیں لوٹتا تھا۔ لیکن رمضانُ المبارک میں صدقہ و خیرات کی مقدار اور تلاوتِ قراٰن باقی مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن عباس  رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان شریف میں جب بھی حضرت جبرائیل  علیہ السّلام آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں آتے تو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ جبرائیل امین  علیہ السّلام رمضانُ المبارک کی ہر رات میں ملاقات کے لئے حاضِر ہوتے اور رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ان کے ساتھ قراٰنِ عظیم کا دَور فرماتے۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر (یعنی بھلائی) کے معاملے میں سخاوت فرماتےتھے۔ [6]

صحابہ کو قیامُ اللیل اور تراویح کی ترغیب دیتے : رمضانُ المبارک میں قیامُ اللیل اور تراویح کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  رمضانُ المبارک کی راتوں میں نہ صرف خود کثرت کے ساتھ نمازیں ادا فرماتے تھے بلکہ صحابۂ کرام کو بھی اس کی ترغیب دلاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  صحابہ کو قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے (لیکن)انہیں اس کا تاکیدی حکم نہ فرماتے۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  فرماتے ہیں : جس شخص نے ایمان اور حصولِ ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے (صغیرہ) گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ ایک اور حدیثِ پاک میں ہے : جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے (صغیرہ) گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ [7]

اسی طرح حضرت عائشہ صدّیقہ  رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں : جب رمضانُ المبارک کا آخری عشرہ داخل ہوتا تو رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کمربستہ ہوجاتے ، راتوں کو خود جاگتے اور گھر والوں کو جگاتے۔ [8]

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی اس عشرہ کی راتوں میں قریبًا تمام رات جاگتے تھے تلاوت قرآن ، نوافل ، ذکر اللہ میں راتیں گزارتے تھے اور ازواج پاک کو بھی اس کا حکم دیتے تھے۔ [9]

مسجد میں ایک چھوٹا سا دروازہ تھا جو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے گھر کی طرف کھلتا تھااسی دروازے سے آپ اپنے گھر والوں کو جگاتے تھے۔ (یہ بھی کہا گیا ہے کہ) جب آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  حاجتِ طبعی کے لئے گھر تشریف لے جاتے تو اس وقت گھر والوں کو جگا دیا کرتے تھے۔ [10]

باقاعدگی سے اعتکاف کا معمول : رمضانُ المبارک میں حضور نبیِّ رحمت ، شفیعِ اُمّت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اُمُّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ  رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں : رسولِ اکرم ، نورِ مجسّم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  رمضانُ المبارک کے آخری عشرہ (یعنی آخری دس دن) کا اِعتکاف فرمایا کرتے یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو وفاتِ (ظاہری) عطا فرمائی۔ پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعد آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔ [11]

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں رسولُ اللہ کے انداز پر عمل کرتے ہوئے ماہِ رمضان کی رحمتیں اور برکتیں لوٹنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



[1] مصنف ابن ابی شیبہ ، 6 / 93 ، حدیث : 8959

[2] شعب الایمان ، 3 / 310 ، حدیث : 3625

[3] فیض القدیر ، 5 / 168 ، تحت الحدیث : 6681

[4] مسند احمد ، 9 / 338 ، حدیث : 24444

[5] مسلم ، ص462 ، حدیث : 2788

[6] بُخاری ، 1 / 9 ، حدیث : 6

[7] مسلم ، ص298 ، حدیث : 1780 ، بخاری ، 1 / 660 ، حدیث : 2015

[8] بخاری ، 1 / 663 ، حدیث : 2024

[9] مراٰۃ المناجیح ، 3 / 207

[10] عمدۃ القاری ، 8 / 264 ، تحت الحدیث : 2024

[11] بُخاری ، 1 / 664 ، حدیث : 2026


Share