رسول اللہ ﷺ کا بیماروں اور پریشان حالوں کے ساتھ اندازِ محبت

انداز میرے حضور کے

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بیماروں اور پریشان حالوں کے ساتھ اندازِمحبت

*مولانا محمدناصرجمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ کی مخلوق سے بہت محبت فرمائی ہے، مخلوق سے محبت فرمانے کے بہت سارے انداز ہمیں سیرتِ مصطفےٰ میں ملتے ہیں، یہی وہ انداز ہیں جو زخموں کے لئے مرہم،بیماری کے لئے دوا اور بے قرار روح کےلئے تسکین کا باعث ہیں۔ کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےکرم نوازی والے اندازکو پڑھنا بھی بہت بابرکت ہےکہ یہ انداز ہمیں بتاتے ہیں کہ تکلیف میں راحت و سکون اِس اندازسے پہنچایا جاتا ہے، رنج و ملال میں گرفتار کو ڈھارس یوں بندھائی جاتی ہے اور مفلس و پریشان حالوں کی بے چینی و اضطراب اِس طرح سےختم کی جاتی ہے۔

مریضوں کے ساتھ اندازِمصطفٰے کی چند جھلکیاں

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ آپ دنیا کی پریشانی آنے پر آخرت کی آسانی اور راحت، سکون اور آرام کی خوشخبری سنا کر ڈھارس بندھاتے۔چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے وہ اعمال لکھے جاتے ہیں جو وہ قیام اور صحت و تندرستی کی حالت میں کرتا تھا۔([i])

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسلمان پر آنے والی بڑی چھوٹی آزمائش پر یہ اجر بیان فرمایا: کوئی بھی مصیبت جو مسلمان پر آتی ہے، اللہ ضرور اس کے ساتھ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے حتّی کہ وہ کانٹا جواسے چبھتا ہے وہ بھی کفارہ بن جاتا ہے۔([ii])

اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام علیہمُ الرضوان کومخلوقِ خدا پرشفقت و مہربانی کرنے کی یوں تعلیم دی: بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا یعنی خوش خبری سناؤ اور (لوگوں کو) نفرت نہ دلاؤ۔([iii])

رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیماروں اور پریشان حالوں کے پاس خود تشریف لے جاتے اور اُن کو تسلی دیتے چنانچہ

(1)حضرت اُمِّ علاء رضی اللہُ عنہا بیمار ہوئیں تو رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے اُمِّ علاء! خوش ہو جاؤ کہ جیسے آگ سونے چاندی کا میل(کھوٹ) دور کرتا ہے ایسے ہی اللہ پاک بیماری کے ذریعے مسلمان کی خطائیں بخش دیتا ہے۔([iv])

(2)آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مریض کی عیادت کی اور اُس سے فرمایا: تجھے بشارت ہو کہ اللہ پاک فرماتا ہے: یہ (یعنی بخار) میری آگ ہے اس لئے میں اسے اپنے مؤمن بندے پردنیا میں مُسَلَّط کرتا ہوں تا کہ قیامت کے دن ا س کی آگ کا حصّہ (یعنی بدلہ) ہوجائے۔([v])

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا:جس نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کی موت کا وقت قریب نہ آیا ہو اور سات مرتبہ یہ الفاظ کہے تو اللہ پاک اسے اس مرض سے شفا عطا فرمائے گا:اَسْئَلُ اللہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَّشْفِیَکَ یعنی میں عظمت والے، عرشِ عظیم کے مالک اللہ سے تیرے لئے شفا کا سوال کرتا ہوں۔([vi])

(3)رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا:جب مریض کھانے کی خواہش کرے تو اسے کھلا دو۔([vii]) یہ حکم اس وقت ہے کہ کھانے کی خواہش سچی ہو۔([viii])

(4)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے انداز کے ذریعے بیماری کےدوران اور اِس کے بعد کھانے اور پرہیز سے متعلق بھی راہنمائی فرمائی چنانچہ اُمِّ منذر بنتِ قیس رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے، کہتی ہیں کہ رسولُ ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مع حضرت علی رضی اللہُ عنہ کے میرے یہاں تشریف لائے۔ حضرت علی رضی اللہُ عنہ کو نقاہت تھی یعنی بیماری سے ابھی اچھے ہوئے تھے، مکان میں کھجور کے خوشے لٹک رہے تھے، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان میں سے کھجوریں تناول فرمائیں۔ حضرت علی رضی اللہُ عنہ نے کھانا چاہا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کو منع کیا اور فرمایا: تم نقیہ ہو۔(یعنی ابھی ابھی مرض سے اُٹھے ہو لہٰذا نقصان دہ غذاؤں سے بچنا ابھی ضروری ہے) آپ کہتی ہیں: میں جو اور چقندر پکاکر لے آئی،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے فرمایا: اس میں سے لو کہ یہ تمہارے لئے نافع ہے۔ ([ix]) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مریض کو پرہیز کرنا چاہئے جو چیزیں اس کے لئے مُضِر(نقصان دہ) ہیں ان سے بچنا چاہئے۔([x])

(5)حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیمار کےلئے تلبینہ تجویز کرتے ہوئے ارشادفرمایا:تلبینہ بیمار کے دل کے لئے راحت وسکون ہے، یہ بعض رنج کو دورکرتا ہے۔([xi])

(6)رسولُ ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مریض کو زبردستی کھلانے سے متعلق فرمایا:مریضوں کو کھانے پر مجبور نہ کرو، کہ ان کو ا پاک کھلاتا پلاتا ہے۔ ([xii])

(7)رسولُ ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوا کے ساتھ علاج کےدوسرے اسباب اختیار کرنےکی بھی تعلیم دی چنانچہ آپ نے فرمایا:نظرِبد اور زہریلے جانور کے کاٹنے میں ”جھاڑ پھونک“ ہے۔([xiii]) یعنی ان دونوں میں زیادہ مفید ہے۔([xiv]) رسولُ ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نظرِ بد سے جھاڑ پھونک کرانے کا حکم فرمایا ہے۔([xv]) حضرت اُم سلمہ رضی اللہُ عنہا کے گھر میں ایک لڑکی تھی جس کے چہرہ میں زردی تھی۔ رسولُ ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اسےجھاڑ پھونک کراؤ، کیونکہ اسے نظر لگ گئی ہے۔([xvi])

(8)رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےاندازِ کریمانہ موت کی سختیوں میں تسلی و ڈھارس کا کام دیتے چنانچہ حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ کا آخری وقت آیا تو آپ رونے لگے اور چہرہ دیوار کی طرف کرلیا، آپ کے بیٹے نے عرض کی: ابو! کیا اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو فلاں خوشخبری نہیں دی؟ کیا اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو فلاں بشارت نہیں سنائی؟ یہ سُن آپ نے اپنا چہرہ اُن کی طرف کرکے فرمایا: ہماری تیاری میں جو سب سے افضل چیز ہے وہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّه کی گواہی ہے۔([xvii])

آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مریض کی عیادت سے متعلق فرمایا: جو کسی مریض کی عیادت کرتاہے یا اللہ پاک کے لئے اپنے کسی مسلمان بھائی سے ملنے جاتا ہے تو ایک منادی اسے مخاطب کرکے کہتاہے: خوش ہوجا کیونکہ تیرا یہ چلنا مبارک ہے اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے۔([xviii])

پریشان حالوں کے ساتھ اندازِ مصطفٰے کی چند جھلکیاں

(1)جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرماہوتےتو صحابَۂ کرام علیہمُ الرضوان کی ایک تعداد حاضر ِ خدمت ہوتی، حاضر ہونے والے صحابہ میں ایک وہ صحابی بھی تھے جن کا ایک چھوٹا بچہ تھا۔ وہ بچہ اِس موقع پر اُن کے پیچھے سے آتا اور اُن کے سامنے آکر بیٹھ جاتا۔ ایک موقع پر رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُن سے فرمایا: کیا تم اِس سے محبت رکھتے ہو؟ عرض کی: اللہ پاک آپ سے ایسے ہی محبت کرے جیسے اِس سے میں محبت کرتا ہوں۔ اُس بچے کا انتقال ہوا تو اِس غم کی وجہ سے وہ اِس حلقے میں حاضر نہ ہوسکے تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا بات ہے کہ مجھے فلاں نظرنہیں آرہے؟ لوگوں نے جب بتایا کہ اُن کے بچے کا انتقال ہوچکا ہے تو آپ اُن کے یہاں تشریف لے گئے،اُس بچے کے بارے میں پوچھا،جب اُن صحابی نے اپنے لختِ جگر کے انتقال کے بارے میں بتایا تو آپ نے اُن سے تعزیت کی اور فرمایا:اے فلاں!تجھے اُس (دنیاسے رخصت ہونے والے بچے) سے زندگی میں فائدہ اُٹھانا پسندتھا یا(یہ اچھالگے گاکہ) کل(بروزِ قیامت)جب توجنّت کےدروازوں میں سے کسی ایک پرجائے تواُسے وہاں پائے،وہ اُس دروازے کو تیرے لئے کھولے؟عرض کی:اےاللہ کے نبی!بلکہ وہ مجھ سے پہلے جنّت کے دروازے پر جائے اور اُسے میرے لئے کھولے یہ مجھے زیادہ محبوب ہے۔ فرمایا: تیرے لئے یہی ہے۔([xix])

(2)حضرت ابو ثعلبہ اشجعی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرے دوبچے حالتِ اسلام میں انتقال کر گئے ہیں۔ فرمایا: جس کے دو بچے اسلام کی حالت میں فوت ہوگئے ا پاک ان بچوں پر اپنے فضل اور رحمت کی وجہ سے اس شخص کو جنّت میں داخل فرمائے گا۔ حضرت ابو ثعلبہ اشجعی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: بعد میں جب میری حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھ سے پوچھا:کیا آپ وہی ہیں جس نےرسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سےدو بچوں کے بارے میں عرض کیا تھا؟میں نےجواب دیا:جی ہاں! تو آپ نے کہا: اگر رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ بشارت مجھے سنائی ہوتی تو یہ مجھے حمص اور فلسطین کی حکومت سے زیادہ پسند ہوتی۔([xx])

(3)حضرتِ سعد بن ابی وقا ص رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! سب سے زیادہ مصیبتیں کن لوگوں پر آئیں؟ فرمایا:انبیا ئے کرام علیہمُ السّلام پر پھر ان کے بعد جولو گ بہتر ہیں پھر ان کے بعد جو بہتر ہیں، بندے کو اس کی دین داری کے اعتبار سے مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے، اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہےتو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں کمزور ہوتا ہے تو اللہ پاک اس کی دین داری کے مطابق اسے آزماتا ہے۔ بندہ مصیبت میں مبتلا ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ دنیا ہی میں اس کے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔‘‘([xxi])

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مصیبت و آزمائش کی صورت میں ہماری اِن احادیث کے ذریعے تربیت فرمائی:

(1)بڑا ثواب بڑی بلاکے ساتھ ملتا ہے اللہ پاک جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزماتاہے جو راضی ہوتا ہے اس کے لئے رضا ہے اور جو ناراض ہوتا ہے اس کے لئے ناراضی ہے۔([xxii]) حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کافر و بدکار پر بڑی بلا آجائے تو اس کا درجہ بڑا ہوگیا، یہ سب کچھ مؤمن کے لئے ہے، مُردے کو بہترین دوائیں دینا بے کار ہے، جڑ کٹے درخت کی شاخوں کو پانی دینا بے سود، اگر کافر عمر بھر بھی مصیبت میں رہے، جب بھی دوزخی ہے اور اگر مؤمنِ صالح عمر بھر آرام میں رہے جب بھی جنتی۔ ہاں تکلیف والے مؤمن کے درجے زیادہ ہوں گے بشرطیکہ صابر اور شاکر رہے۔ خیال رہے کہ رضا یا ناراضی دل کا کام ہے،لہٰذا تکلیف میں ہائے وائے کرنا اس کے دفع کی کوشش کرنا یا مریض و مظلوم کا حکیم و حاکم کے پاس جانا ناراضی کی علامت نہیں، ناراضی یہ ہے کہ دل سے سمجھے کہ رب نے مجھ پر ظلم کیا، میں اس بلا کا مستحق نہ تھا یہاں صوفیاء فرماتے ہیں کہ بندے کی رضا رب کی رضا کے بعد ہے پہلے اللہ بندے سے راضی ہوتا ہے تو بندہ رب سے راضی ہو کر اچھے اعمال کی توفیق پاتا ہے۔([xxiii])

(2) مؤمن کے معاملے پرتعجب ہے کہ اس کا سارامعا ملہ بھلائی پرمشتمل ہے اور یہ صرف مؤمن کے لئے ہے جسے خوشحالی حاصل ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے کیونکہ اس کےحق میں یہی بہتر ہے اور اگر تنگ دستی پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے۔([xxiv])

سکون و تسلی پانے کے لئے فرمانِ مصطفٰے سننے کا سلسلہ بھی جاری تھا چنانچہ حضرت ابو حسان رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے عرض کیا: میرے دو بچے مرچکے ہیں، کیا آپ مجھے رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کوئی ایسی حدیث نہیں سنائیں گے جو ہمیں اپنے مُردوں کے بارے میں مطمئن کردے؟ فرمایا: ہاں! سناتا ہوں، وہ بچے بلاروک ٹوک جنّت میں جہاں چاہیں گے چلے جایا کریں گے۔ ان میں سے جب کوئی بچہ اپنے والد یا والدین سے ملے گا تو ان کے کپڑے یا ہاتھ کو ایسے پکڑےگا جیسے میں نے تمہارے کپڑوں کےدامن کو پکڑرکھا ہے اور اسے اس وقت تک نہ چھوڑے گاجب تک کہ ا پاک اس کے والد کو جنّت میں داخل نہ فرمادے۔([xxv])

مریضوں اور پریشان حالوں سے متعلق اندازِ مصطفٰے حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، جو لوگ دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہیں، سنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے مدنی مذاکروں میں حاضر ہوتے ہیں، مدنی قافلوں میں سفر کرتے ہیں،نیک اعمال کا رسالہ فِل کرتے ہیں، مدنی چینل کے پروگرامز دیکھتے ہیں اور مکتبۃُ المدینہ سے شائع ہونے والا لٹریچر پڑھتے ہیں اُن کو یہ اندازِ مصطفٰے سیکھنا اور اُن پر عمل کرنا نصیب ہوتا ہے، آپ بھی کوشش کیجئے کہ اندازِ مصطفٰے کا علم حاصل کرنے کے لئے اِن تمام ذرائع کو اختیار کریں۔اللہ کریم ہمیں سیرتِ مصطفٰے پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث، المدینۃ العلمیہ Islamic Research Center کراچی



([i])بخاری،2/308، حديث: 2996

([ii])بخاری،4/3، حديث: 5640

([iii])بخاری،1/42،حدیث:69

([iv])ابو داؤد، 3/247،حدیث: 3092

([v])ابنِ ماجہ،4/105، حدیث: 3470

([vi])ابو داؤد،3/251، حدیث: 3106

([vii])ابن ماجہ،4/89، حدیث:3440

([viii])بہارشریعت،5/501

([ix])ابوداؤد،4/5،حدیث:3856

([x])بہارشریعت،5/501

([xi])بخاری،3/532، حدیث: 5417

([xii])ترمذی،4/5، حدیث:2047

([xiii])ترمذی، 4/12،حدیث:2064

([xiv])بہارشریعت،5/501

([xv])بخاری،4/31، حدیث:5738

([xvi])بخاری،4/31، حدیث:5739

([xvii])مسلم،ص70، حديث: 321

([xviii])ترمذی، 3/406،حدیث:2015

([xix])نسائی،ص351،حدیث:2085، مسنداحمد،8 /303

([xx])مسنداحمد،10/348،حدیث:27289

([xxi])ابن ماجہ،4/369، حدیث:4023

([xxii])ترمذی،4 /178، حدیث:2404

([xxiii])مراٰۃ المناجیح،2/422

([xxiv])مسلم،ص1222، حدیث:7500

([xxv])مسلم،ص1086،حدیث:6701۔


Share