رسول اللہ ﷺ کا اندازِ مہمان نوازی

انداز میرے حضور کے

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ مہمان نوازی

*مولانا محمد ناصرجمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024

حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت و زندگانی  کو اللہ پاک  نے ہمارے لئے کامل عملی نمونہ ارشاد فرمایا ہے۔  آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیّبہ کا ایک  اہم پہلو مہمان نوازی بھی ہے۔

مہمان نوازی حضور نبیِّ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایسا وصف  ہے کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی اور حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غارِ حرا سے واپس گھر تشریف لائے تو  کلامِ الٰہی کے جلال سے آپ کا جسم مبارک کانپ رہا تھا، اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہُ عنہا نے  آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ڈھارس بندھانے اور اللہ کریم کی آپ پر خاص عنایت ہونے کا بیان کرتے ہوئے  چند اوصاف بیان فرمائے ان میں ایک وصف یہ بھی تھا: وَتقْرِي الضيفَ یعنی آپ تو مہمان کی مہمان نوازی کرنے والے ہیں۔ ([i])

 آئیے!  حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مہمان نوازی کے انداز ِمبارک کے  چند واقعات ملاحظہ کرتے ہیں:

ایک بکری سےمہمان نوازی: حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جتنا حضرت زینب رضی اللہُ عنہا کے نکاح پر ولیمہ کیا، ایسا ولیمہ ازواجِ مطہرات میں سے کسی کا نہیں کیا۔ ایک بکری سے ولیمہ کیا۔  ([ii])  یعنی تمام ولیموں میں یہ بہت بڑا ولیمہ تھا کہ ایک پوری بکری کا گوشت پکا تھا۔([iii]) دوسری روایت میں ہے کہ حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہُ عنہا کےزفاف کے بعد جوولیمہ کیا تھا، لوگوں کو پیٹ بھر روٹی گوشت کھلایا تھا۔([iv])

کھجور وغیرہ سےمہمان نوازی: حضرت انس رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر سے واپسی میں خیبر و مدینہ کے مابین حضرت صفیہ رضی اللہُ عنہا کے زفاف کی وجہ سے تین راتوں تک حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےقیام فرمایا، اس میں مسلمانوں کو ولیمہ کی دعوت میں بُلالایا، ولیمہ میں نہ گوشت تھا، نہ روٹی تھی، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےحکم دیا، دسترخوان بچھادیے گئے،اُس پرکھجوریں اور پنیر اور گھی ڈال دیا گیا۔([v]) ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہُ عنہا کے ولیمہ میں ستو اور کھجوریں تھیں۔([vi])

بکری کی دستی سےمہمان نوازی :حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ایک رات میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مہمان بنا تو آپ نے میرے لئے بکری کی دستی بھنوائی اور کرم نوازی فرماتے ہوئے اُسے کاٹ کاٹ کر میرے آگے رکھنے لگے۔([vii])

مہمان نوازی کا انتظام:ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں بھوکا ہوں۔ آپ نے پہلے تمام ازواجِ مطہّرات کو پیغام بھجوایا مگر اُن سب کے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہ تھا چنانچہ رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اِس کی آج رات مہمان نوازی کرے گا اللہ اُس پر رحم فرمائے گا۔ ایک انصاری صحابی نے مہمان نوازی کرنے کی حامی بھری اور اُسے اپنے ساتھ لے گئے، گھر پہنچ کر اپنی زوجہ سے فرمایا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مہمان کا اِکرام کر و۔زوجہ نے جواباً کہا:ہمارے پاس تو بچوں کے کھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے یہ تجویز دی: جب عشاء کا وقت ہو جائے تو تم بچوں کو بہلا پھسلا کر سُلا دینا،پھر جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو تم چراغ درست کرنے کے بہانے آ کر اسے بجھا دینا،اگر آج رات ہم بھوکے رہیں تو کیا ہو گا۔ چنانچہ یہی کچھ کیا گیا اور جب صبح کے وقت وہ شخص نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’اللہ نے تمہارا یہ عمل بہت پسند فرمایا ہے ،پس اللہ کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:

(وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ)

ترجَمۂ کنز الایمان: اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو۔([viii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ایک پیالہ دودھ سے مہمان نوازی:حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ ایک مرتبہ بھوک کی حالت میں راستے میں موجود تھے کہ اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے اور چہرہ دیکھ کر ان کی حالت سمجھ گئے۔ انہیں ساتھ لے کر اپنے مکانِ عالی شان پر تشریف لائے تو دودھ کا ایک پیالہ موجود تھا جو کسی نے بطورِ تحفہ بھیجا تھا۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ کو حکم فرمایا کہ جاکر اَصحابِ صُفّہ کو بُلا لائیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہکے دل میں خیال آیا کہ ایک پیالہ دودھ سے اَہْلِ صُفّہ کا کیا بنے گا، اگر یہ دودھ مجھے عطا ہوجاتا تو میرا کام بن جاتا۔ بہر حال حکمِ رسالت پر عمل کرتے ہوئے اصحابِ صُفّہ کو بُلا لائے۔ اب اِن ہی کو حکم ہوا کہ پیالہ لے کر سب کو دودھ پِلائیں۔ آپ پیالہ لے کر اصحابِ صُفّہ میں سے ایک صاحب کے پاس جاتے، جب وہ سَیر ہو کر پی لیتے تو ان سے پیالہ لے کر دوسرے کے پاس جاتے۔ ایک ایک کر کے جب تمام حاضرین نے سیر ہوکر دودھ پی لیا تو پیالہ لے کر رحمت ِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچے،حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پِیالہ لے کر اپنے مبارک ہاتھ پر رکھا،ان کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔پھر فرمایا: بیٹھو اور پیو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ نے بیٹھ کر دودھ پیا۔ دوبارہ حکم ہوا: پیو، انہوں نے پھر پیا۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار فرماتے رہے: پیو، اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ پیتےرہےیہاں تک کہ عرض گزار ہوئے: اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میرے پیٹ میں اب مزید گُنجائش نہیں ہے۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے پیالہ لے کر اللہ پاک کی حمد کی،بِسْمِ اللہ پڑھی اور باقی دودھ نوش فرما (یعنی پی) لیا۔([ix])

کیوں جنابِ بُوہریرہ تھا وہ کیسا جامِ شِیر

جس سے ستّر صاحبوں کا دودھ سے منہ پِھر گیا

مہما ن نوازی سے متعلق تعلیمات و ارشاداتِ نبوی:

(1)رسول ِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  ارشاد فرمایا: جو اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے، مہمان پر انعام و عطیہ ایک دن رات ہے اور مہمان نوازی تین دن تک ہے، اس کے بعد مہمان کو کھلانا صدقہ ہے۔ نیز مہمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے پاس ٹھہرا رہے یہاں تک کہ میزبان کو تنگ کردے۔ ([x])

حکیم الامّت  مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اگر صاحب خانہ خود ہی بخوشی روکے تو رک جانے میں حرج نہیں لیکن اس پرتنگی ہو اور مہمان ڈٹا رہے یہ بے غیرتی بھی ہے اور مسلمان کو تنگ کرنا بھی، یہ ممنوع ہے۔([xi])

(2)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لَيْلَةُ الضَّيْفِ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ یعنی ہر مسلمان پر حق ہے کہ ایک رات مہمان کی مہمان نوازی کرے۔([xii])

(3)مہمان کو  رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس قدر  اہمیت سے نوازا ہے کہ  اگر کوئی لگاتار نفلی روزے اور عبادت کے باعث مہمان کا حق ادا نہ کرسکے تو اسے مسلسل روزوں سے منع فرمایا، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: اِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا یعنی بےشک تم پر تمہارے مہمان کا حق ہے۔([xiii])

یعنی ملاقاتی لوگ اور مہمان چاہتے ہیں کہ تم ان کے ساتھ کھاؤ پیو اور رات کو دو گھڑی ان سے بات چیت کرو،تم یہ بھی نہ کرسکو گے۔ان جملوں سے معلوم ہوا کہ ہمیشہ روزے رکھنے کی ممانعت ہم جیسے لوگوں کے لیے ہے جو تمام حقوق چھوڑ بیٹھیں۔جن کے لیے ہمیشہ کا روزہ اور رات بھر کا جاگنا مذکورہ حقوق سے آڑ نہ ہو ان کے لیے اس میں حرج نہیں مگر ایسے بہادر لوگ لاکھوں میں ایک آدھ ہیں،جیسے حضرت طلحہ وغیرہ صحابہ میں اور امام ابوحنیفہ تابعین میں۔([xiv])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([i])دیکھئے: بخاری، 1/8، حدیث:3

([ii])بخاری،3/453،حدیث:5168

([iii])بہارشریعت، 3/388

([iv])بخاری،3/306،حدیث:4794

([v])دیکھئے:بخاری،3/86،حدیث: 4213

([vi])ترمذی، 2/349،حدیث:1097

([vii])ابوداؤد، 1/96، حدیث:187

([viii])پ28،الحشر:9-بخاری،3/348،حدیث:4889

([ix])بخاری، 4/234،حدیث:6452ملخصاً

([x])بخاری، 4/136، حدیث:6135

([xi])مراٰۃُ المناجیح، 6/54

([xii])ابوداؤد، 3/482، حدیث:3750

([xiii])بخاری، 1/649، حدیث: 1974

([xiv])مراٰۃ المناجیح،  3/188


Share