باتیں میرے حضور کی
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بحیثیتِ قانون ساز
*مولانا احمد رضا شامی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024
قانون کی اصل غرض و غایت معاشرے میں امن و امان کا قیام اور ہر شخص کے ہر جائز حق کی حفاظت و نگہداشت ہے، پہلے حصے کا تعلق عدلیہ سے اور دوسرے کا انتظامیہ سے ہے۔ ہر وہ قانون جو اس غرض کو پورا کرے گا اور جس قدر زیادہ اچھی صورت میں پورا کرے گا اسی قدر وہ قانون قابلِ اعتماد و احترام، لائقِ تعریف و سَتائش اور زیادہ مقبول ومفید ہوگا۔ اور پھر اس قانون کو پیش کرنے والا بھی اسی قدر زیادہ محسنِ انسانیت اور زیادہ سے زیادہ داد وتحسین کا مستحق ٹھہرے گا۔
اقسامِ قانون
یہ قوانین بنائے جانے کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں، یا تو ان قوانین کو مرتب کرنے والے مختلف صلاحیتوں کے حامل عام انسان ہوتے ہیں، جو اپنی عقل اور علمی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اور دنیا جہان کے دیگر قوانین کا جائزہ لیتے ہوئے مخصوص خطّے کے افراد کے احوال وکیفیات کو مدِّنظر رکھ کر اُس خطے کی فلاح و بہبود کے لئے یہ قوانین مرتب کرتے ہیں اور پھر وقتاً فوقتاً ضرورت کے تحت ان میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔
یا پھر اس قانون کو مرتب کرنے والے انبیائے کرام علیہمُ السّلام ہوں گے جو علم وحکمت اور فہم و فراست میں تمام اہلِ زمانہ سے اعلیٰ اور ہر قسم کے عیب سے پاک ہوتے ہیں، اور وہ خالقِ کائنات کی نازل کردہ کتب سے حاصل شدہ نظام کو معبودِ حقیقی کے بندوں کی دنیا و آخرت میں فلاح و بہبود کے لئے مکمل دیانتداری سے ان تک پہنچائیں گے، اور مؤَثّر انداز اور بہترین حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ اپنا عملی کردار پیش کرکے اس نظام کو دنیا میں نافذ بھی کریں گے۔
پہلے قوانین کو وضعی قوانین یعنی عام انسانوں کا مرتب شدہ قانون کہتے ہیں، جبکہ دوسرے قوانین ”شرعی قوانین“ ہیں یعنی انبیائے کرام کا وحیِ الٰہی سے ماخوذ نظام ”شریعت“ کہلاتا ہے۔
اسلامی قانون سازی/عالمگیر فطری قانون
وحی سے ماخوذ شرعی قوانین مختلف انبیائے کرام اپنے اپنے زمانوں میں مخصوص خطّوں اور قوموں کے لئے رائج کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ ربُّ العٰلمین کے آخری اور سب سے افضل نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی سب سے آخری اور بلند رتبہ کتاب قراٰنِ کریم سے مُسْتَنْبَط قوانین لے کر جلوہ گَر ہوئے، جو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی فلاح وبہبود کا ضامن ہے جس نے جہالت و گمراہی میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو پھر عروج وکمال کی بلندیوں تک پہنچادیا۔ اور اسی مبارک قانون کا نام اسلامی قانون ہے، جس کی بنیاد روزِ اوّل ہی سے انسانی فطرت اور ہدایتِ الٰہی پر ہے، انسانی قانون ہزاروں سال کی ترقی و تبدیلی کے بعد بھی جس منزل پر نہ پہنچ سکےگا اسلامی قانون کا پہلا قدم ہی وہاں سے اٹھا ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ خالقِ کائنات کا نازل کردہ ہےاور اس کو لانے والے قانون ساز نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات ِمبارکہ پوری انسانیت کیلئے زندگی کے تمام مراحل عبادات،معاملات، اخلاقیات، عدل و قضا وغیرہ میں اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہے، اگرچہ شارع حقیقی اللہ ربُّ العٰلمین کی ذات ہی ہے لیکن اللہ رب العزّت کی عطا اور دیے ہوئے اختیارات سے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا شارع و قانون ساز ہونا ایک قطعی اور تسلیم شدہ حقیقت ہے،کیونکہ بظاہر احکام آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف سے صادر ہوتے تھے جو درحقیقت اللہ کی طرف سے وحی کے بعد یا دائرۂ عصمت ہی کے تحت صادر ہوتے تھےجیسے کہ اللہ پاک فرماتا ہے:
(وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴))
ترجَمۂ کنزُالایمان:اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے۔([i])
بہترین قانون ساز کی صفات
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسلامی قانون سازی میں تمام اقوامِ عالم اور دنیا کے ہر خطے کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت رکھی اور اس کو قیامت تک آنے والے افراد اور مستقبل میں پیش آنے والے حالات و واقعات میں قابلِ عمل بنانے کے لئے مؤثر اقدامات کئے اور اسی مقصد کے پیش نظر اسلامی قانون کی تشکیل کے وقت ان بنیادی امور کا لحاظ کیا گیا جن سے اسلامی قانون کے ہمہ جہت اور عالمگیر ہونا روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے۔ آئیے! ذیل میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چند قوانین کا جائزہ لیتے ہیں:
مساوات کی قانون سازی
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دیے ہوئے قوانین کی ایک اور خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس میں انسانی برابری کا عملی نمونہ موجود ہے اسلام نے آکر انسانوں کو حقوق میں برابر کر دیا، اور بے شک برابری انصاف کا سب سے بڑا اور بنیادی اصول ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ انصاف کی عمارت کی بنیاد برابری ہی ہے۔ حضورانور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تمام مسلمانوں کو چاہے امیر ہوں یا غریب، عربی ہوں یا عجمی، کالے ہوں یا گورے اسلامی احکامات میں سب کو برابر کر دیا۔ قراٰنِ پاک نے فرمایا کہ وجہِ تکریم تقویٰ ہے۔ نسل و رنگ وغیرہ کی بنا پر کوئی فوقیت کسی کو حاصل نہیں اور یہی حضور ِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا: يَا اَيُّهَا النَّاسُ اَلَا اِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَبَاكُمْ وَاحِدٌ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلٰى عَجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلٰى عَرَبِيٍّ وَلَا اَحْمَرَ عَلٰى اَسْوَدَ وَلَا اَسْوَدَ عَلٰى اَحْمَرَ اِلَّا بِالتَّقْوَى یعنی اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارے والد ایک ہیں، سُن لو! کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں البتہ جو پرہیزگار ہے وہ دوسروں سے افضل ہے۔([ii])
مساوات کا یہ قانون خود رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے دکھایا جیسے کہ چوری کے ایک مقدمہ میں جب ایک اونچے گھرانے کی عورت نے چوری کی تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک تاریخی فیصلہ فرما کر رہتی دنیا تک کے لئے ایک مثال قائم فرمائی چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مخزومیہ عورت نے چوری کی تھی، جس کی وجہ سے قریش کو فکر پیدا ہوگئی (کہ اس کو کس طرح سزا سے بچایا جائے۔) آپس میں لوگوں نے کہا کہ اس کے بارے میں کون شخص رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سفارش کرے گا؟ پھر لوگوں نے کہا: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہُ عنہما کے سوا جو کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے محبوب ہیں، کوئی شخص سفارش کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا، غرض حضرت اسامہ رضی اللہُ عنہ نے سفارش کی، اس پر حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تو حد کے بارے میں سفارش کرتا ہے! پھر حضورپُر نور خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور اس خطبہ میں یہ فرمایا کہ اگلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کیا کہ اگر اُن میں کوئی شریف چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اُس پر حد قائم کرتے، خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت ِمحمد چوری کرتیں تو میں اُن کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔([iii])
ذبح و قتل کا قانون
رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الاِحْسَانَ عَلٰى كُلِّ شَىء فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَاَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَاَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ اَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهُ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں بھلائی کرنے کا حکم فرمایا ہے۔لہٰذا تم جب کسی کو قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، چھری تیز کرو اور ذبیحہ کو راحت پہنچاؤ۔([iv])
سرکارِ دوعالِم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کس شاندار انداز سے حقوق ِ انسانی کا تحفظ کیا ہے بلکہ انسان تو انسان جانوروں کے ساتھ بھی کس مہربانی کا سلوک فرمایا گیا کہ ان کو کوئی تکلیف نہ دی جائے اگر ضرورتاً ان کو ذبح بھی کرنا پڑے تو اس میں بھی احسان کا برتاؤ کرتے ہوئے اس کی راحت کا اہتمام کیا جائے، اسی طرح انسانی معاشرے کی اِصلاح کی خاطر اگر مجرم کو سزا کے طور پر قتل بھی کیا جائے تو بلا ضرورت تکلیف نہ دی جائے۔
میدانِ جنگ اور رسول اللہ کی قانون سازی
عام حالات تو اپنی جگہ حالتِ جنگ کے لئے بھی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسی قانون سازی فرمائی کہ انسانی حقوق کے عَلَم بردار قوانین اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں، سرکارِ دوعالَم جب جنگ کے لئے لشکر روانہ فرماتے تو امیرِ لشکر کو جو وصیت فرماتے، وہ ملاحظہ ہو حدیثِ پاک میں ہے: قَالَ اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تَمْثُلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا یعنی اﷲ کے نام سے اﷲ کی راہ میں جہاد کرو، ان سے جنگ کرو جو اللہ کو نہیں مانتے، (جہاد میں) نہ خیانت کرو،نہ بد عہدی اور نہ مثلہ کرو نہ کسی بچہ کو قتل کرو۔([v])
یہ حدیث پاک بڑے واضح انداز میں اسلامی قانون سازی میں سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حقوق انسانیت کے تحفظ کو بیان کرتی ہے۔
آسانی دینے اور مشقت سے بچانے کی قانون سازی
نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قانون سازی فرماتے ہوئے بےجا تکلیف اور مشقت پر مبنی کاموں سے امت کو راحت عطا فرمائی، جیسا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت معاذ بن جبل رضیَ اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضیَ اللہ عنہ کو دینی معاملات کا انتظام سپرد کرکے یمن بھیجتے وقت ارشاد فرمایا: يَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا یعنی تم دونوں آسانی کرنا تنگی مت کرنا، خوشخبری دینا نفرت مت پھیلانا، ایک دوسرے کی اطاعت کرنا آپس میں جھگڑنا مت۔([vi])
احساسِ ذمہ داری اجاگر کرنا
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قوانین معاشرے کے ہر فرد کے دل و دماغ میں یہ احساس راسخ کرتے ہیں: كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ یعنی تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔([vii])
تو جب معاشرے کا ہر ہر شخص اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرے گا تو یقیناً ہر طرف خوشحالی اور کامیابی ہی نظر آئے گی۔
عزیمت و رخصت کی قانون سازی
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے احکامات کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے بیان فرمائے تاکہ انسان اپنی استطاعت اور کیفیت کے مطابق جس کو چاہے اختیار کرے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یہ عادتِ کریمہ تھی کہ جب آپ کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی امت پر شفقت و مہربانی کرتے ہوئے اس میں سے آسان تر کو اختیار فرماتے بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہوتا، جیسا کہ امّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ اَمْرَيْنِ اِلَّا اَخَذَ اَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ اِثْمًا فَاِنْ كَانَ اِثْمًا كَانَ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جب بھی دو چیزوں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر اس میں کوئی گناہ ہوتا تو سب لوگوں سے زیادہ آپ اس سے دور رہتے۔([viii])
اور عملی طور پر بھی سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جن امور میں ممکن ہوتا لچک و مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کام موقع کی مناسبت سے دو مختلف انداز میں ادا فرماتے تاکہ حالات کے پیش ِ نظر دونوں پر عمل کی گنجائش باقی رکھی جاسکے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں محسنِ انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اصول و سیرت کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* استاذ الحدیث، مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments