
انداز میرے حضور کے
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اجتماعی پریشانیوں میں انداز
*مولانا محمد ناصرجمال عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
اللہ کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےجب اعلانِ نبوت فرمایا تو جیسے جیسے ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھتی گئی، آزمائشوں، پریشانیوں اورمصیبتوں میں بھی اتنی ہی تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا، شمعِ رسالت کےاِن پروانوں نےاجتماعی پریشانیوں میں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نگاہِ نبوت سےفیض پاکراندھیروں میں روشنی دیکھنے کا ہنر سیکھا، زبانِ رسالت سےادا ہونے والے الفاظ بےچین کردینےوالی مشکلات سےنجات کاسبب بنے، مصیبتوں کے طوفانوں میں ثابت قدم کیسے رہا جائے؟ناامیدی سےنجات کیسےحاصل کی جائے؟اور اِن جیسی کئی آزمائشوں کے بارے میں اندازِ مصطفےٰ سے راہنمائی ملی، آئیے! اُن میں سے چندانداز ملاحظہ کرتے ہیں:
اعلانِ نبوت سے پانچ سال پہلے کاواقعہ: اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اعلانِ نبوت سے پانچ سال پہلے شدید بارش کے سبب کعبۃُ اللہ شریف کی عمارت کو بہت نقصان پہنچا، لہٰذا قریش کے تمام قبائل نے یہ فیصلہ کیا کہ از سرِ نو عمارت بنائی جائے یوں یہ کام شروع ہوگیا۔رسول ِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اِس نئی تعمیر میں عملاًشریک ہوئے۔جب تعمیر مکمل ہوئی اور حجرِ اسود رکھنے کا مرحلہ آیا توقبیلوں کا آپس میں اختلاف ہوگیا، ہرقبیلہ یہ چاہتا تھا کہ حجرِ اسود کو نصب کرنے کا اعزاز صرف اور صرف اُسے ملےاور اِس راستے میں جورکاوٹ بنے تلوار کے زور پر بات کی جائے۔معاملہ وقتی طور پر ٹالنے کیلئےایک شخص نے یہ تجویز دی: کل جو شخص صبح سویرے سب سے پہلے حرمِ مکہ میں داخل ہو اسی سے ہم اپنا فیصلہ کروائیں گے۔ وہ جو فیصلہ دے سب قبائل اسے تسلیم کریں گے۔ چنانچہ اس پر تمام قبیلوں کا اتفاق ہوگیا۔
نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگلی صبح سب سے پہلے حرمِ مکہ میں داخل ہوئے،آپ کو پہلے دیکھ کر بعد میں آنے والوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا، سب کہنے لگے: یہ امین ہیں، یہ جو بھی فیصلہ فرمائیں گے ہم تسلیم کریں گے۔
اِن لوگوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پرقتل وغارت گری کی تاریخ کو سامنے لائیے اور اِس آزمائش کی سنگینی کا اندازہ کیجئے اور آزمائش سے نکلنے کے لئے رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ حکمت ملاحظہ کیجئے، چنانچہ آپ نے فرمایا:جو قبیلےحجرِ اَسْوَد رکھنے کا تقاضا کرتے ہیں وہ اپنا ایک ایک سردار چُن لیں۔ پھر آپ نے اپنی چادر بچھائی، اُس پر حجرِ اسود رکھا اور سرداروں سے فرمایا: وہ سب مل کر اس چادر کو تھام کر حجرِ اسود کو اٹھائیں۔ سب نےایسے ہی کیا اور جب حجرِ اسود اپنے مقام تک پہنچ گیا تو آپ نے بابرکت ہاتھوں سے حجرِ اسود اٹھا کر اس کی جگہ رکھ دیا۔آپ کےاِس اندازِحکمت کی برکت سے جنگ و جدال کا خطرہ ٹل گیا۔([1])
جنگِ بدر:کفارکےظلم وستم کےسبب مسلمانوں نےمکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی لیکن اس کےباوجودکفار لوٹ مار مچاکر اورکبھی لڑ بِھڑ کرمسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے۔
کفار کے بڑے قافلے کی تجارتی سامان کے ساتھ شام سے مکّہ واپسی کی خبرمدینہ شریف پہنچی تو رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کفّار کی طرف سےمسلمانوں کے لئے کھڑی کی جانے والی اجتماعی پریشانیوں کا حل یہ تجویز فرمایا کہ کفار کے اس قافلےپرحملہ کیا جائے یوں شام سےآنے والا مالِ تجارت رُک جائے گاجس کی وجہ سے کفار کے بڑے بڑے سردار صلح پر مجبوراً آمادہ ہوجائیں گے۔ جنگِ بدر میں اگر چہ مسلمانوں کی تعداد313 تھی،اِس کےباوجود کفارکو بہت نقصان پہنچا اور مسلمانوں کو عروج نصیب ہوا۔([2]) آزمائش کے اِس موقع پر اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک انداز بیان کرتے ہوئے حضرت علّامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں:17رمضان 2 ہجری جمعہ کی رات تھی تمام فوج تو آرام و چین کی نیند سو رہی تھی مگر ایک سرورکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات تھی جو ساری رات خداوندِ عالم سے لو لگائے دعا میں مصروف تھی۔ صبح نمودار ہوئی تو آپ نے لوگوں کو نماز کے لئے بیدار فرمایا پھر نماز کے بعد قراٰن کی آیاتِ جہاد سنا کر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز وعظ فرمایا کہ مجاہدینِ اسلام کی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ جوش و خروش کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور لوگ میدانِ جنگ کے لئے تیار ہونے لگے۔([3])
جنگِ احد:جنگِ بدر میں کفار کا جو نقصان ہوا اُس نے انہیں انتقام پر ابھارا اب کی بار انہوں نے فیصلہ کیا کہ مدینۂ منوّرہ پر حملہ کیا جائے اور یہی غزوۂ احد کا سبب بنا۔
لشکر کےپیچھے ایک تنگ راستہ نکلتا تھا جہاں سے کفار کا پیچھے سے حملہ کرنےکاامکان تھا چنانچہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاِس آزمائش سے بچنےکےلئےوہاں پچاس تیرانداز مقرر فرمائے تھے اور اُن کویہ تاکید کی تھی کہ کچھ بھی ہوجائے اپنی جگہ سےمت ہٹنا۔ جب جنگ شروع ہوئی اورجب تک تیر انداز اِس تاکید پر عمل پیرا رہے تو مسلمان غالب رہے۔
غزوۂ احزاب: غزوۂ احزاب کاموقع ہے، مسلمانوں کو مٹانے کے لئےکفار کے کئی قبیلے متحد ہوکرآمادۂ جنگ ہوئے اور اپنی فوج کے ساتھ مدینہ کی جانب بڑھنے لگے۔ سورۂ احزاب کی یہ آیات اس جنگ کی ہولناکی واضح کررہی ہیں:
(اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا(۱۰)هُنَالِكَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا(۱۱))
ترجَمۂ کنزالایمان: جب کافر تم پر آئے تمہارے اُوپر سے اور تمہارے نیچے سےاور جب کہ ٹھٹک کر رہ گئیں نگاہیں اور دل گلوں کے پاس آگئے اور تم اللہ پر طرح طرح کے گمان کرنے لگےوہ جگہ تھی کہ مسلمانوں کی جانچ ہوئی اور خوب سختی سے جھنجوڑے گئے۔([4])
آزمائش کی اِس گھڑی میں رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہُ عنہ کےمشورے سے مدینہ کے اِرد گرد خندق کھدوائی اور اِس کھدائی میں خود بھی بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔ اِس سخت ترین آزمائش میں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ کرم ملاحظہ کیجئے،چنانچہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ کے صحابہ نے خندق کھودی تو بھوک کی شدت سےسب نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے۔ آپ نے فرمایا: ہمیں سلمان کے پاس لے چلو۔ وہاں گئے تو ایک چٹان ٹوٹنے کانام نہیں لے رہی تھی۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میرے لئےچھوڑ دو،اِس پر پہلے میں ضرب لگاتا ہوں، آپ نے بِسمِ اللہ شریف پڑھ کر اس پر ضرب لگائی تو اس کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ پھرآپ نے مشکل کی اِس گھڑی میں غیب کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: اللہ اکبر ! ربِّ کعبہ کی قسم! روم کے محلات (یعنی عنقریب اِسے مسلمان فتح کریں گے) پھر آپ نے دوسری ضرب لگائی تو ایک اور ٹکڑا الگ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: اللہ اکبر ! ربِّ کعبہ کی قسم! فارس کے محلات(یعنی عنقریب اِسے مسلمان فتح کریں گے۔)([5])
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آزمائش کے اِس موقع پر بھی مستقبل کی کامیابیوں کا بیان فرماکر ایک نیا حوصلہ دیا، رحمتِ خداوندی سے مسلمانوں کو غزوۂ احزاب کے موقع پر بھی کامیابی نصیب ہوئی وہ دن بھی آیا کہ جب روم و فارس کے محلات مسلمانوں نے فتح کئے۔
اللہ سے امید سے بھرپور یہ انداز اگر ہم بھی اپنا لیں اور یوں ذہن بنالیں کہ”اللہ نے چاہا تو بُرے دن جلد ختم ہوجائیں گے“ تو بے چین دل کو قرار نصیب ہوگا۔ اِنْ شآءَ اللہُ الکریم
ایک ملک سے لے کر گھر اورخاندان تک میں کمزور طبقات کا خیال رکھنے کے یہ اندازِ مصطفےٰ اپنائے جائیں تو وہاں آزمائشیں اور مشکلات سے صبر و شکر کے ساتھ نکلنا آسان ہوگا، ضرورت ہے تو صرف عمل کی، اللہ کریم ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments