آخری نبی محمد عربی ﷺ کا مصیبت زدوں کے ساتھ انداز

انداز میرے حضور کے

آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مصیبت زدوں کے ساتھ انداز

*مولانا محمد ناصرجمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل2025

جیسےسکھ، خوشی اور آسائش ہمیشہ نہیں رہتے ایسے ہی دکھ، غمی اور آزمائش بھی ہمیشہ نہیں رہتے،انسان آسانیوں میں ہو یا مشکلات میں؛ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ یہ وقت گزارتا کس انداز سے ہے؟ اللہ کریم کی ہم پر کرم نوازی ہے کہ خوشی،غمی اور سکھ دکھ ہر حالت درست طریقے سے گزار نے کے لئے ہمیں اندازِ مصطفےٰکی نعمت عطا فرمائی ہے۔

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کئی طرح کی آزمائشیں آئیں، آپ نے کس انداز میں وہ وقت گزارا؟ اس بارے میں آپ پچھلی اقساط میں پڑھ چکے، البتہ جب دوسروں پر مصیبت و پریشانیاں آتیں تو پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا انداز کس قدر غم گساری، ہمدردی اور ڈھارس بندھانے والا ہوتا، اس کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کیجئے:

یتیم،بیوہ اورفقیر و مسکین کے ساتھ انداز:یتیم،بیوہ،فقیر و مسکین وغیرہ معاشرے کے کمزور طبقات میں آتے ہیں، یہ طبقات ہمارے حُسنِ اخلاق کےزیادہ حق دار ہیں، اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اِن طبقات کے ساتھ انداز بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن ابی اَوفی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کثرت سے ذکر کرتے،لغو بات نہ کرتے، نماز لمبی پڑھاتے، خطبہ مختصر دیتے۔ بیواؤں اورمسکینوں کےساتھ چلنے میں عار محسوس نہ کرتے یہاں تک کہ ان کی ضرورت پوری کر دیتے۔([1])

رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک موقع پر یتیم کی کفالت کرنے والے کا اجر بیان کرتے ہوئے فرمایا: اَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هٰكَذَا یعنی میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنّت میں اس طرح ساتھ ہوں گے۔ یہ فرما کر آپ نے شہادت اور درمیان والی انگلی کوباہم ملایا۔([2])

رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیوہ اور یتیم کے لئے کوشش کرنے والے کا اجر یہ بیان فرمایا:السَّاعِي عَلَى الْاَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اَوِ الْقَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَارَ یعنی جو شخص بیوہ اور مسکین کے لئےکوشش کرنے والا ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنےیا رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔([3])

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اَللّٰهُمَّ اِنِّي اُحَرّ ِجُ حَقَّ الضَّعِيفَيْنِ الْيَتِيمِ وَالْمَرْاَةِ یعنی اے اللہ! میں دو کمزوروں: ”یتیم اور عورت“ کی حق تلفی حرام ٹھہراتا ہوں۔([4])

رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کمزور کی خدمت کرنے کی اہمیت کو یوں واضح فرمایا:اَبْغُونِي الضُّعَفَاءَ فَاِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ یعنی میرے لئے کمزور لوگوں کو تلاش کرو کہ تمہارے کمزور لوگوں ہی کے سبب تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔([5])

صبر اور اس پر اجر کی بشارت: نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت زید بن اَرقم رضی اللہُ عنہ کی بیماری میں عیادت کے لئے ان کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: ”تمہاری بیماری خطرناک نہیں، لیکن اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب میرے بعد تمہاری عمر لمبی ہو گی اور تم نابینا ہو جاؤ گے؟“ انہوں نے عرض کیا: تومیں اس وقت ثواب طلب کروں گااور صبر کروں گا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”تب تم بغیر حساب جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔“ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وفات کے بعد وہ نابینا ہو گئے پھر اللہ پاک نے انہیں بصارت عطا فرمائی اور پھر انہوں نے وفات پائی۔([6])

ضعیفوں کے ساتھ انداز:فتحِ مکہ کے بعد جب ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ اپنے والد ابوقحافہ کو اسلام قبول کرانے کے لئے لائے تو رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں دیکھ کر فرمایا: هَلَا تَرَكْتَ الشَّيْخَ فِي بَيْتِهٖ حَتَّى اَكُونَ اَنَا آتِيهِ فِيهِ یعنی تم نے بزرگ کو گھر کیوں نہ رہنے دیا کہ میں خود آجاتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہ زیادہ حق دار تھےکہ چل کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے، نہ کہ آپ اُن کے پاس تشریف لے جائیں۔ پھر صدیق اکبر نے اپنے والد کو رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے بٹھا دیا تو آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا۔([7])

نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ایک بوڑھا شخص ملنے آیا۔ لوگوں نے اسے جگہ دینے میں دیر کر دی تو آپ نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑےکی تعظیم نہ کی۔([8])

رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مصیبت زدہ پر خصوصی کرم نوازی فرماتے، اُسے زبانِ رسالت سے ڈھارس و تسلی ملتی، آئیے! اندازِ مصطفےٰکی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مریض کی عیادت کی اور اُس سے فرمایا:خوش ہو جاؤ! اللہ پاک فرماتا ہے: یہ (بخار) میری آگ ہے جسے میں اپنے مومن بندے پر دنیا میں مسلط کرتا ہوں تاکہ آخرت میں جو آگ کا حصہ اس کے لئے ہے، وہ دنیا ہی میں اسے مل جائے۔([9])

(2)حضرت ا ُمِّ عَلاء رضی اللہُ عنہا بیمار تھیں، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُن کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:اے اُمِّ عَلاء! خوش ہو جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ مسلمان کی بیماری کے ذریعے سے اس کی خطائیں معاف کرتا ہے جس طرح آگ سونے اور چاندی کا میل(کھوٹ)ختم کر دیتی ہے۔([10])

آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مریضوں کوخوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:جب کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے وہ اعمال لکھے جاتے ہیں جو وہ قیام اور صحت و تندرستی کی حالت میں کرتا تھا۔ ([11])

مصیبت زدہ اونٹ کے ساتھ انداز:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا، اُونٹ نے جب آپ کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اپنی گردن آپ کے سامنے جھکا دی۔ آپ اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اس اُونٹ کا مالِک کہاں ہے؟ مالک حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: یہ اُونٹ بیچتے ہو؟ اس نے عرض کی: نہیں، بلکہ یہ آپ کےلئے تحفہ ہے۔ مزید عرض کی کہ یہ ایسے گھرانے کا ہے کہ جن کے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: اس اونٹ نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چاراکم ڈالتے ہو۔اس کےساتھ اچھاسلوک کرو۔([12])

چڑیا کے ساتھ انداز:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ہم رسول ِکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ قضائے حاجت کے لئےتشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے دو بچے تھے، ہم نے انہیں پکڑلیا، چڑیا آئی اور پھڑپھڑانے لگی۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے تودریافت فرمایا: کس نے اس کے بچّوں کے معاملے میں اسے تکلیف پہنچائی ہے؟ اس کے بچّے اسے لوٹا دو۔([13])

مصیبت زدہ ہِرنی کے ساتھ انداز: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمگاؤں میں رہنے والے ایک شخص کے خیمے کے پاس سے گزرے وہاں ایک ہرنی بندھی تھی،آپ کو دیکھ کر ہِرنی نے عرض کی:یَارَسُوْلَ اللہ! یہ خیمے والا اَعرابی (یعنی گاؤں میں رہنے والا شخص) مجھے جنگل سے پکڑ کر لایا ہے، جبکہ میرے دو بچّے جنگل میں ہیں، میرے تھنوں میں دودھ گاڑھا ہورہا ہے یہ نہ تو مجھے ذَبح کرتا ہے کہ میں اِس تکلیف سے راحت پاجاؤں اور نہ مجھے چھوڑتا ہے کہ اپنے بچوں کو دودھ پلا آؤں۔ آپ نےہِرنی کی التجا سُن کرفرمایا: اگر میں تجھے چھوڑدوں تو کیا تو اپنے بچّوں کو دودھ پلا کر واپس آجائے گی؟ عرض کی: جی ہاں! میں ضَرور واپس آؤں گی، اگر میں نہ آؤں تو اللہ پاک مجھےناجائز ٹیکس وصول کرنے والے کا سا عذاب دے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے چھوڑا تو وہ بڑی تیزی و بے قراری سے جنگل کی طرف چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد واپس آگئی۔ آپ نے اُسے خیمے کے ساتھ باندھ دیا۔ اتنے میں وہ اَعرابی بھی پانی کا مشکیزہ اٹھائے بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہو گیا۔آپ نے فرمایا:یہ ہِرنی ہمیں بیچ دو! عرض کی: یَارَسُوْلَ اللہ!یہ بطورِ ہدیہ پیشِ خدمت ہے۔ چنانچہ آپ نے اُسے آزاد فرمادیا تو وہ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ“ پڑھتے ہوئے جنگل کی طرف چلی گئی۔([14])

مصیبت میں گرفتار افراد کے لئے خوش خبریاں

(1)آنکھوں سے محرومی کتنی بڑی آزمائش ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے بارے میں اللہ پاک کایہ ارشاد بیان فرمایا: جب میں اپنے کسی بندے کو دو محبوب چیزوں (یعنی آنکھوں) کے ذریعے آزماتا ہوں، پھر وہ صبر کرے تو ان کے بدلے میں اسے جنت دیتا ہوں۔([15])

(2)جب کسی شخص کا بیٹا فوت ہوجاتا ہے تو اللہ کریم فرشتوں سے دریافْت فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے بیٹے کی رُوح قبض کرلی؟ تو وہ عرض کرتے ہیں: ہاں۔ پھر فرماتا ہے: تم نے اُس کے دِل کا پھل توڑ لیا؟ تو وہ عرض کرتے ہیں: ہاں۔ پھر فرماتا ہے: میرے بندے نے کیا کہا؟ تو وہ عرض کرتے ہیں: ”اس نے تیری حمد(تعریف)کی اور اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡن پڑھا۔“ تو اللہ پاک فرماتا ہے:میرے اِس بندے کے لئے جنّت میں ایک گھر بناؤ اور اُس کا نام بَیْتُ الْحَمْد رکھو۔([16])یہ سوال و جواب اُن فرشتوں سے ہےجو میّت کی رُوح بارگاہِ الٰہی میں لے جاتے ہیں اِس سےمقصود اُنہیں گواہ بنانا ہےورنہ ربّ تعالیٰ علیم و خبیر ہے۔ خیال رہے کہ جنّت میں بعض محل ربّ کی طرف سے پہلے ہی بن چکے ہیں اور بعض انسان کے اعمال پر بنتے ہیں، یہاں اُس دوسرے محل کا ذِکر ہے جیسے یہاں مکانوں کے نام کاموں سے ہوتے ہیں ویسے ہی وہاں اُن محلات کے نام اعمال سے ہیں۔([17])

(3)مومن کو کانٹا چبھے بلکہ اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ اس کے گناہ ایسے جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔([18])

اَلحمدُ لِلّٰہ!ہمارےپیارےنبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یہ انداز مایوسی، ناکامی اور ناامیدی کا خاتمہ کرتے ہیں اور امید، بلند حوصلہ اور صبر و استقامت کاجذبہ پیدا کرتے ہیں۔

آئیے! ہم بھی یہ انداز اپنا لیتے ہیں تاکہ ہمارا طرزِ عمل بیماروں کےلئے دوا،پریشان حالوں کے لئے ذریعَۂ نجات اور بے چینوں کے لئے سببِ سکون و قرار بن جائے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])نسائی، ص243، حديث: 1411

([2])بخاری، 3/497، حدیث: 5304

([3])بخاری، 3/511، حديث: 5353

([4])ابن ماجہ،4/193،حدیث: 3678

([5])ابو داؤد،3/46،حديث: 2594

([6])معجم کبیر،5/211،حدیث:5126

([7])مسند احمد،44/517،حدیث:26956

([8])ترمذی،3/369،حدیث: 1926

([9])ابن ماجہ،4/105، حدیث: 3470

([10])ابوداؤد،3/246، حدیث: 3092

([11])بخاری،2/300،حدیث:2966

([12])مسنداحمد، 29/106، حدیث: 17565

([13])ابوداؤد، 3/75، حدیث:2675

([14])دلائل النبوۃ للبیہقی، 6/35

([15])بخاری، 4/6، حدیث: 5653

([16])ترمذی، 2/313، حدیث: 1023

([17])مراٰۃ المناجیح، 2/507

([18])بخاری، 4/5، حدیث: 5648۔


Share