(1)نقد اور
اُدھار کے ریٹ میں فرق رکھنا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس
مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا تعلق غلّہ منڈی بصیر پور اوکاڑہ سے ہے،ہم کھاد، بیج،
اسپرے وغیرہ کا کاروبار کرتےہیں۔ بعض اشیاء نقد اور بعض ادھار پر دیتے ہیں اور اس
کی تعیین بھی شروع ہی میں کرلی جاتی ہے،ادھار کی قیمت نقد سے زیادہ ہوتی ہے۔ رقم کی
ادائیگی کی مدت بھی شروع سے ہی طے ہوتی ہے اور رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں
کسی طرح کا جرمانہ بھی نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ ادھار کی صورت میں قیمت زیادہ
مقرر کرنا غیر شرعی عمل تو نہیں؟ بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ادھار میں زیادہ قیمت
مقرر کرنا سُود ہے۔آپ اس معاملے میں ہماری شرعی رہنمائی فر مائیں۔سائل:نوید احمد قادری(غلّہ منڈی ضلع اوکاڑہ، پنجاب)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نقد و ادھار خرید وفروخت میں چند چیزوں
کا لحاظ ضروری ہے، پہلی یہ
کہ شروع ہی میں طے کر لیا جائے کہ سود ا نقد ہے یا ادھار، دوسری یہ کہ ادھار کی
صورت میں ادائیگی کی مدت بھی معلوم و مقرر ہو۔ تیسری یہ کہ کوئی ناجائز شرط بھی نہ
ہو مثلاً مقرّر کردہ مدت سے تاخیر کی صورت میں جرمانہ وغیرہ کی شرط نہ ہو۔ ان چیزوں
کا لحاظ رکھتے ہوئے خرید و فروخت جائز ہے اور چونکہ آپ کا طریقہ کار بھی اس کے مطابق ہے لہٰذا درست ہے۔ جو لوگ
اسے سُودی معاملہ کہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ توبہ کریں کہ بغیر
تحقیق کے اپنی اَٹکل سے شرعی مسئلہ بتانا
ناجائز وگناہ ہے ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
مفتی فضیل
رضا عطّاری
(2)پرانی قبر کھود کر کسی کو دفن
کرنا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی شخص کا اپنے والد یا دادا کی قبر کھود کر اس میں کسی اور مُردے کو دفن کروانا یا اپنے جسم کو وہاں دفن کرنے کا کہنا کیسا ہے؟ شریعت کی روشنی میں اس کا جواب عنایت فرمائیں؟سائل :محمد افضل خان(لیاقت آباد، کراچی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسلمان میت کی قبر کو بِلاضرورت کھودنا یا اس کی جگہ دوسری میت دفن کرنا ناجائز و حرام اورگناہ ہے، لہٰذا والد، دادا یا ان کے علاوہ کسی اور کی قبر خواہ کتنی ہی پُرانی ہوجائے اسے کھود کر اس کی جگہ کسی دوسرے مُردےکو دفن کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، احادیثِ مبارکہ میں مسلمان کی قبر پر بیٹھنے، اس پر چلنے، اسے پاؤں سے روندنےاوراس سے تکیہ لگانے کی بھی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے جبکہ اسے برابر کر کے کھود ڈالنا تو اور زیادہ سخت قبیح، قبورِ مسلمین کی توہین و بےادبی، باعثِ گناہ و عذاب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رازوں کی توہین بھی ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
مفتی فضیل
رضا عطّاری
(3)امتحانات کے
عملے کو کھلانا پلانا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ
شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ Examination Staff کو اس لئے کھانا کھلانا اور تحفہ دینا تاکہ وہ ہمارے طَلَبہ کو چیٹنگ (نقل) کرنے دیں۔ یہ کیسا ہے؟ سائلہ :بنتِ نواز(خوشاب)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قوانینِ شرعیہ کے مطابق اپنا کام نکلوانے
یا دوسروں کی حق تلفی کے لئے کسی کو کچھ
دینا رشوت کہلاتاہے، اس کے مطابق Examination Staff
کو اس مذموم غرض سے کھانا کھلانا یا تحفہ دینا، اپنا کام نکلوانے اور نقل نہ کرنے
والے طلبہ کی حق تلفی کے لئے ہے، لہٰذا رشوت و ناجائز ہے۔ پھر یہ کہ امتحانات میں
نقل کرنا یا کروانا خود مستقل طور پر ناجائز و حرام کام ہے، اولاً اس لئے کہ
قانوناً جرم ہے اور پکڑے جانے کی صورت میں ذلت و رُسوائی کا سبب ہے اور ایسا ملکی
قانون جو خلافِ شریعت نہ ہو اور اس کی خلاف ورزی میں ذلّت کا اندیشہ ہو، ایسے
قانون پرشرعاً بھی عمل واجب ہے، ثانیاً اس لئے کہ نقل کرنے میں نگرانی کرنے والوں،
پیپر چیک کرنے والوں اور اس ڈگری کے ذریعے نوکری دینے والوں کے ساتھ دھوکا ہے
حالانکہ احادیثِ کریمہ میں دھوکا دینے سے منع فرمایا گیا ہے،ثالثاً اس لئے کہ نقل
کرنے میں بغیر نقل پیپر دینے والے طلبہ کی حق تلفی ہے اور یہ بھی ناجائز ہے۔الغرض
نقل کرنا یا کروانا کئی وجوہ سے ناجائز ہے اور ایسا ناجائز کام بغیر رشوت بھی
ناجائز و حرام ہے، تو رشوت دے کر کرنے یا کرانے میں اس کی شناعت و بُرائی میں
اضافہ ہو جائے گا، لہٰذا اس مذموم غرض سے کھانا کھلانا یا تحفہ دینا سخت ناجائز و
حرام ہے،کھانے والے، کھلانے والے یونہی تحفے کا لین دین کرنے والےرشوت کے گناہ کے
ساتھ ساتھ نقل کے گناہ میں معاون و مددگار بننے کی وجہ سے سخت گناہ گار و عذابِ نار
کے حقدار ہوں گے،لہٰذا اس سے بچنا فرض ہے۔
واللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
ابومحمدمحمدسرفرازاخترعطاری مفتی فضیل رضا عطّاری
(4)پلاسٹک یا
لوہے کا بنا ہواچشمہ پہن کر نماز پڑھنا کیسا؟
سوال:کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ
کے بارے میں کہ پلاسٹک یا لوہے وغیرہ کی دھات سےبنا ہوا چشمہ پہن کر نماز پڑھنا کیسا
ہے؟سائل:محمدارسلان
(گلستانِ جو ہر،
کراچی)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
چشمے کا فریم خواہ پلاسٹک سے بنا ہو یا
کسی بھی دھات سے اسے پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے، جبکہ ناک کی ہڈی زمین پرجم رہی ہو۔
سجدے میں پیشانی کالگانا فرض ہےجبکہ ناک کی ہڈی کا لگانا واجب ہے اس لئے اگرچشمہ کی
وجہ سے ناک کی ہڈی زمین پر نہ جمتی ہو یا چشمے کی وجہ سے صرف ناک کی نوک ہی لگائی
ہو تو ترکِ واجب کی بنا پرنماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہو گا یعنی اس حالت میں پڑھنی
گناہ اور پڑھ لی ہو تواس کا اِعادہ(یعنی نماز دوہرانا) واجب ہوگا۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
ابو الحسن جمیل احمد غوری عطاری مفتی فضیل رضا عطاری
Comments