حکایت:ایک بُزُرْگ کا بیان ہے کہ میں
پہلے بڑا گنہگارتھا، ایک دن کسی یتیم(Orphan) کو
دیکھا تو میں نے اس سے اتنا زیادہ عزّت و
محبت بھرا سلوک کیا جتنا کہ کوئی باپ بھی اپنی اولاد سے نہیں کرتا ہوگا۔ رات کو جب
میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ جہنّم کے فِرِشتے
بڑے بُرے طریقےسے مجھے گھسیٹتے ہوئے جہنّم کی طرف لے جارہے ہیں اور اچانک وہ یتیم
درمیان میں آ گیا اور کہنے لگا: اسے چھوڑدو تاکہ میں ربِّ کریم سے اس کے بارے میں
گفتگو کرلوں، مگر فِرشتوں نے انکار کردیا، پھر ایک نِداسنائی دی:اسے چھوڑ دو! ہم
نے یتیم پر رَحم کرنے کی وجہ سے اسے بخش دیا ہے۔ خواب ختم ہوتے ہی میری آنکھ کُھل
گئی، اس دن سےہی میں یتیموں کے ساتھ انتہائی باوقارسلوک کرتا ہوں۔(مکاشفۃ
القلوب، ص231) معلوم ہوا کہ یتیم سے کیا گیا حُسنِ سُلوک دنیا کے ساتھ
ساتھ آخرت کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔
یتیم کسے کہتے ہیں؟ ہر وہ
نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو جائے وہ یتیم ہے۔(دُرِّمختار
مع رد المحتار،ج 10،ص416)
اس میں شک نہیں کہ جب تک باپ سلامت رہتا ہے وہ اپنے بچوں
کے لئے مضبوط مُحافِظ، بہترین نگران (Guardian)،
شفیق استاذ اورایک سایہ دار درخت ثابت ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی دنیا سے رُخصت ہوتا
ہے تو بچّوں کے سَر سے گویا سائبان لپیٹ دیا جاتا ہے۔ بظاہر پورا گھر بے سہارا ہو جاتا
ہے اور ایسے میں بعض اپنے بھی پَرائے ہونے لگتے ہیں، بعض رشتہ دار نگاہیں پھیر
لیتے ہیں اور تعلّق رکھنے والے حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اگر باپ کچھ مال چھوڑ کر
گیا ہو تو کچھ رشتےدار بُھوکے گِدھ کی طرح مالِ وراثت پر نظریں گاڑ کر تاک میں بیٹھ جاتے
اور موقع ملنے پر یتیموں کا حق ہتھیا کر اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔
یتیم اوراسلامی تعلیمات: اسلام نے مذکورہ سوچ کی نَفی کےلئے یتیم سے نیک سلوک کی ترغیبات ارشاد فرمائی ہیں۔ یتیموں سے حُسنِ سلوک کرنے کی یہ سنہری تعلیمات ”انسانی زندگی کی بہتری“ اور ہر ایک کو مُعاشَرے کا باعزّت فرد بنانے کی ضامن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قراٰنِ پاک میں متعدد مقامات پر یتیموں کے حُقوق کی طرف توجّہ دلائی گئی ہے۔ ایک آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے اپنی عبادت کرنے اور شِرکْ سے بچنے کے حکم کے بعد جن لوگوں سے حُسْنِ سلوک کا حکم دیا ہے ان میں والدین اور رشتہ داروں کے بعد تیسرے نمبر پر یتیموں کا ذکر فرمایا ہے۔(پ 5، النسآء: 36)
یتیموں سے حسنِ سلوک کرنے اور ان کی خبر گِیری کرنے میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کردار ہمارے لئے سراپا ترغیب ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہ صِرف خود یتیموں و بےکسوں کی مدد فرمائی بلکہ رہتی دنیا تک اپنے ماننے والوں کو اس کا درس بھی دیا۔
یتیم سے حسنِ سلوک سے متعلق 2فرامینِ مصطفےٰ:
(1)میں اور یتیم کی کَفالَت کرنے والا جنّت میں اس طرح ہوں گے۔یہ کہہ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی دونوں انگلیوں (یعنی شہادت اور اس کے ساتھ والی انگلی) کے ساتھ اشارہ فرمایا۔(بخاری،ج4،ص102،حديث:6005)
(2)مسلمانوں
کے گھروں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا
جاتاہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بُراگھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے
ساتھ بَدسلوکی کی جاتی ہو۔ (ابن ماجہ،ج 4،ص193، حديث:3679)
یاد رکھئے! آج اگر ہم یتیموں کے دُکھ دَرد کو ہلکا کرنے،
ان کی زندگیوں پہ چھائی تاریکیاں مِٹانے اور ان کے مُرجھائے اور غم زدہ چہروں پر مسکراہٹیں
بَکھیرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ کریم ہماری دنیا و آخرت کو روشن فرمائے گا۔ اللہ پاک ہمیں
یتیموں کا سہارا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ابو معاویہ محمد منعم
عطاری مدنی
٭…شعبہ بیانات دعوتِ
اسلامی المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments