کمالاتِ مصطفےٰصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم

اللہ  کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے 3خُصوصی فضائل

(1)معجزات و کمالات کو جمع کردیا گیا:دیگر انبیائے کرام علیہم الصّلٰوۃ والسَّلام کو جو فضائل و معجزات الگ الگ ملے وہ سب محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے جمع کر دئیے گئے۔(کشف الغمۃ ،ج2،ص54)

تمام اچّھی خَصلتوں کو جمع فرمالیا:اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے:) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْؕ-(ترجمۂ کنزُالایمان: یہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی تو تم انہیں کی راہ چلو۔(پ7،الانعام:90) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

امام فخرُالدّین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:علمائے کرام نے اس آیتِ مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیائے کرام علیہم السَّلام سے افضل ہیں۔ اللہ پاک نے مختلف انبیا کو جو کمال والی خصلتیں اور شَرَف و فضیلت والے اَوْصاف عطا فرمائے ہیں ان کا ذکر کرکے اپنے حبیبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حکم دیا کہ ان تمام اوصاف و کمالات کو جمع فرمالیں اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اللہ کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی ہونا ممکن ہی نہیں۔ ثابت ہو ا کہ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان تمام خصائلِ حمیدہ کو جمع فرمالیا جو انبیائے کرام علیہم السَّلام کو الگ الگ حاصل تھیں اس لئے آپ تمام انبیا سے افضل ہیں۔(تفسیر کبیر،ج5،ص57)

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کسی نبی نے کوئی آیت وکرامت ایسی نہ پائی کہ ہمارے نبی اَکرمُ الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم وسلَّم کو اس کی مثل اور اس سے اَمْثَل عطا نہ ہوئی۔(فتاویٰ رضویہ،ج24،ص595)

صَدْرُالشّریعہ مفتی اَمجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اَورَوں کو فَرْداً فَرداً (یعنی دیگر لوگوں کو الگ الگ)جو کمالات عطا ہوئے حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) میں وہ سب جمع کر دیے گئے اور اِن کے علاوہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو وہ کمالات ملے جن میں کسی کا حصہ نہیں۔ (بہارِ شریعت ،ج1،ص63)

مدنی مشورہ :اس حوالے سے مزید تفصیل جاننے کے لئے رَئِیْسُ الْمُتَکَلِّمِین مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب” سُرُورُ القُلوب فی ذِکرِ المَحْبوب‘‘ صفحہ 312تا 321 ملاحظہ فرمائیے۔

خَلْق سے اَوْلِیا اولیا سے رُسُل اور رسولوں سے اَعلیٰ ہمارا نبی

مُلکِ کَونَین میں انبیا تاجدار تاجداروں کا آقا ہمارا نبی

(2)نام لے کر پکارنے کی ممانعت :سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نام لے کر پُکارنا آپ کی اُمّت پر حرام کردیا گیا۔ (انموذج اللبیب، ص57)

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:علماء تَصْریح فرماتے ہیں(کہ) حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نام لے کر نِداکرنی(یعنی پکارنا) حرام ہے اور(یہ بات) واقعی مَحَلِّ انصاف ہے،جسے اُس کا مالک ومولیٰ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نام لے کر نہ پکارے غلام کی کیا مجال کہ راہِ ادب سے تَجاوُز کرے(یعنی آگے بڑھے)، بلکہ امام زَینُ الدِّین مَرَاغی وغیرہ مُحَقِّقِین نے فرمایا: اگر یہ لفظ (یعنی یا محمد)کسی دعاء میں وارِد ہو جو خود نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے تعلیم فرمائی تاہم اس کی جگہ یارسولَ اللہ ، یانبیَّ اللہ (کہنا) چاہیے، حالانکہ الفاظِ دعاء میں حَتّی الْوَسْع تَغْیِیْر(یعنی جہاں تک ممکن ہو تبدیلی) نہیں کی جاتی۔یہ مسئلۂ مُہِمَّہ (یعنی اہم مسئلہ) جس سے اکثر اہلِ زمانہ غافِل ہیں نہایت واجبُ الْحِفْظ ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 30،ص157)

صَدْرُ الشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اگر حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو پکارے تو نامِ پاک کے ساتھ نِدا نہ کرے کہ یہ جائز نہیں، بلکہ یوں کہے: یَا نَبِيَّ اللہ! یَارَسُوْلَ اللہ! یَا حَبِیبَ اللہ! (بہارِ شریعت،ج1،ص78)

گزشتہ اُمّتوں کا اپنے نبیوں کو نام لے کر پکارنا: اے عاشقانِ رسول !دیگر انبیائے کرام علیہم السَّلام کی اُمّتیں نام لے کر اپنے نبیوں کو پُکارا کرتی تھیں۔ دو مثالیں ملاحظہ فرمائیے:(1)حضرت سیّدُنا موسیٰ علیہ السَّلام کی قوم کا کلام:( قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌؕ-) ترجمۂ کنزُ العرفان: (بَنی اِسرائیل نے) کہا: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک معبود بنادو جیسے ان کے لئے کئی معبود ہیں۔(پ9، الاعراف: 138)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(2)حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کی قوم کا کلام:) اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ) ترجمۂ کنزُ العرفان: یاد کرو جب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم! (پ7، المآئدہ: 112)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اُمّتِ مُسلمہ کے لئے حکم:اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت کو یہ حکم فرمایا:( لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-) ترجمۂ کنزالعرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔ (پ18،النور:63)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

حضرت علّامہ احمد بن محمد صاوِی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ مُقَدَّسَہ کے تحت فرماتے ہیں: سیِّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نام لے کر ’’یا محمد‘‘ اور کُنْیَت کے ساتھ ’’یَا اَبَا الْقَاسِم‘‘کہہ کر نہ پکارا جائے بلکہ تعظیم و تکریم اور عزّت و تَوقِیر کے ساتھ یارسولَ اللہ، یانَبِيَّ اللہ، یااِمَامَ الْمُرْسَلِین، یارسولَ رَبِّ الْعَالَمِین اور یاخَاتَمَ النَّبِیِّیْن وغیرہ کلمات کے ساتھ پکارا جائے۔(تفسیر صاوی،ج 4،ص1421)

(نعت میں بھی)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ”یَا مُحَمَّد“ کہہ کر پکارنے کی اجازت نہیں۔ لہٰذا اگر کسی نعت وغیرہ میں اس طرح لکھا ہوا ملے تو اسے تبدیل کردینا چاہیے۔(صراط الجنان،ج 6،ص675)

اے عاشقانِ رسول! جن رِوایات میں کسی شخص کے سرکارِ دَوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ”یا محمد“ کہہ کرپکارنے کا تذکرہ ہے ان کی علمائے کرام نے دو وُجوہات بیان فرمائی ہیں:(1)اس طرح کی روایات اللہ پاک کی طرف سے مُمانَعَت نازل ہونے سے پہلے کی ہیں(2)اس طرح نام لے کر نِدا کرنے والے اَفراد اس حکم سے ناواقف تھے۔(زرقانی علی المواھب،ج6،ص26،سبل الھدیٰ والرشاد،ج10،ص454)

(3)خوشبو کے ذریعے پہچان لیا جاتا:اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کسی راستے سے گزرتے تو بعد میں آنے والا شخص خوشبو کے ذریعے پہچان لیتا کہ اس راستے سے سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گُزرے ہیں۔(کشف الغمۃ،ج2،ص64) قُدْرَتِی خوشبو: اے عاشقانِ رسول!حضرت علّامہ مولانا علی بن سلطان محمد قاری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: یہ خوشبو بدن یا لباس پر کسی قسم کی خوشبو استعمال کرنے کے باعِث نہیں تھی بلکہ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (کے مبارک بدن) کی قُدْرَتِی خوشبو تھی۔(شرح الشفا،ج1،ص167) مُشک کی خوشبو: حضرت سیّدُنا اَنَس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینۂ منوّرہ کے راستوں میں سے کسی راستے سے گزرتے تو اس راستے سے مُشک کی خوشبو آنے لگتی اور لوگ کہتے: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آج اس راستے سے گزرے ہیں۔ (مسند ابی یعلیٰ،ج3،ص135، حدیث:3113)

جس گلی سے تُو گزرتا ہے مرے جانِ جِناں

ذَرَّہ ذَرَّہ تِری خوشبو سے بَسا ہوتا ہے

(سامانِ بخشش،ص177)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… کاشف شہزاد عطاری مدنی

٭…ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی


Share