معاشرےکےافرادکےظاہروباطن کو بُری خصلتوں سے پاک کرکےاچّھے اوصاف سے مزیّن کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک باکردار فرد بنانا بہت بڑا کام اور انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ و السَّلام کا طریقہ ہے۔تربیت کرنے والے کو حُسْنِ اَخلاق کا پیکر،خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والا،عَفْو و دَرگزر سے کام لینے والا،عاجزی اختیار کرنے والا،ہشّاش بَشّاش رہنے والا، حسبِ موقع مسکرانے والا، نَفاست پسند اور خوفِ خدا رکھنے والا ہونا چاہئے۔اگر ہم لوگوں کو سچّا مسلمان بنانا،دنیا و آخرت میں انہیں کامیاب و کامران دیکھنا اور خود بھی سُرخرُو (کامیاب) ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی اچّھے انداز سے تربیت کرنی ہوگی۔اچّھی تربیت میں جن اُمور کا لحاظ رکھا جاتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ سامنے والے کی طبیعت اور مزاج کا خیال رکھا جائے اور بڑی حکمتِ عملی اور عَقْل مندی کے ساتھ تربیت کی جائے،سامنے والے کی نفسیات سمجھنے کو تربیت کے سلسلے میں بڑی اہمیت حاصل ہے،اس حوالے سے ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ تربیت بہترین نمونہ ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کسی نبی کو جو عقل عطا کی جاتی ہے وہ اوروں سے بہت زیادہ ہوتی ہے،کسی بڑے سے بڑے عقل مند کی عقل ان کی عقل کے لاکھویں حصّے تک بھی نہیں پہنچ سکتی ۔ آئیے!رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تربیت کا ایک واقعہ ملاحظہ کرتے ہیں:
جُھوٹ سے بچنے کی برکت:ایک مرتبہ ایک شخص نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہنے لگا:میں آپ پر ایمان لانا چاہتا ہوں مگر مجھے شراب نوشی، بدکاری، چوری اور جُھوٹ سے مَحبَّت ہے۔ لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ آپ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں،مجھ میں ان سب چیزوں کو چھوڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ اگرآپ مجھے ان میں سے کسی ایک سےمنع فرمادیں تو میں اسلام قبول کرلوں گا۔نبیِّ مُکرّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:تم جھوٹ بولنا چھوڑدو!اس نے یہ بات قبول کرلی اور مسلمان ہوگیا ۔ دربارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جانے کے بعد جب اسے لوگوں نے شراب پیش کی تو اس نے کہا:میں شراب پیوں اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھ سے شراب پینے کے متعلق پوچھ لیں تو اگر میں جُھوٹ بولوں گا تو حضور علیہ السَّلام سے کئے ہوئے وعدے کو توڑنے والا ہوجاؤں گا اور اگر اقرار کیا تو مجھ پرحد (شرعی سزا) قائم کی جائے گی، لہٰذا اس نے شراب نوشی چھوڑدی، اسی طرح بَدکاری اور چوری کا معاملہ دَر پیش ہوتے وقت بھی اسے یہی خیال آیا،چنانچہ وہ ان بُرائیوں سے باز رہا۔ جب بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اس کی دوبارہ حاضری ہوئی تو کہنے لگا:آپ نے بہت اچّھا کام کیا،آپ نے مجھے جُھوٹ بولنے سے روکا تو مجھ پر دیگر گناہوں کے دروازے بھی بند ہوگئے اور یوں اس شخص نے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرلی۔(تفسیرِ کبیر،پ11،التوبۃ،تحت الآیۃ:119،ج 6،ص167)
سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فِراسَت مرحبا! آپ نے اپنی مبارک عَقْل کے نور سے پہچان لیا کہ یہ شخص جُھوٹ چھوڑنے کے سبب دیگر گناہوں سے بھی بچ جائے گا اسی لئے اسے جُھوٹ ترک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور پھر واقعی وہ تمام گناہوں سے تائب ہوگیا۔
کھاتے وقت اِصلاح فرمائی:حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تربیت کا ایک اور واقعہ ملاحظہ کیجئے کہ آپ نے کس حکمتِ عملی اور کتنے پیارے انداز میں غلطی کی اِصلاح فرمائی، چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنھا کے بیٹے حضرت عُمَر بن ابو سَلَمَہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پرورش میں تھا،میرا ہاتھ (کھانا کھاتے ہوئے) پیالے میں اِدھر اُدھر گھومتا تھا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: يَا غُلامُ سَمِّ اللہَ وَكُلْ بيَمِينكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ یعنی بیٹا!اللہ کا نام لو (بسم اللہ پڑھو)، سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ۔(حضرت عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:) اس کے بعد میں ہمیشہ اسی طریقے سے کھانا کھاتا رہا۔ (بخاری،ج3،ص521، حدیث: 5376) قربان جائیے!رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اندازِ تربیت پر! کس پیار بھرے اور مثبت (Positive) انداز میں اپنی گفتگو شُروع فرمائی، آپ نے پہلے پہل کھانے کے آداب بیان فرمائے تاکہ انہیں یہ محسوس نہ ہو کہ مجھے ٹوکا جارہا ہے اور آخر میں یہ ادب بھی بتادیا کہ برتن میں اپنے قریب سے کھانا چاہئے اور غلطی کی اِصلاح اس انداز سے فرمادی کہ گویا آخری بات بھی دوسری ہدایتوں کی طرح ایک ہدایت ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! اگر ہم صحیح انداز سے تربیت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا مُطالَعَہ کرنا ہوگا کہ کس طرح آپ لوگوں کے مِزاج اور نفسیات کو ملحوظ رکھ کر حکمت ِعملی کے ساتھ لوگوں کی تربیت فرماتے تھے۔تفسیرِ عزیزی میں ہے:عقل کے سو (100) حصّے ہیں جس میں سے ننانوے (99) حصّے نبیِّ پاک صلَّی اللہعلیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا ہوئے اور جو شخص نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عَقْل معلوم کرنا چاہے، اسے چاہئے کہ سیرت کی کتابوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرے۔ (تفسیر عزیزی مترجم،ج3،ص61) تربیتِ رسول کا ایک اور واقعہ پڑھئے:
وارثوں کا مال: ایک مرتبہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ ٔکرام علیہمُ الرِّضوان سےفرمایا:تم میں کون ایساہےجسے اپنے مال سے زیادہ وارثوں کا مال پسند ہو؟ صحابۂ کرام نے عرض کی:ہم میں سے تو کوئی ایسا نہیں جسے اپنے مال سے زیادہ وارثوں کے مال سے مَحبَّت ہو۔ارشاد فرمایا:جس نے (صدقہ دے کر) اپنا مال آگے بھیج دیا وہ اس کا مال ہے اور جو پیچھے چھوڑ دیا وہ اس کے وارثوں کا مال ہے۔(مسند احمد،ج2،ص23،حدیث:3626)
تمام عاشقانِ رسول سے میری فریاد ہے کہ وہ معاشرے کے افراد کی تربیت میں اپنا اپنا حصّہ ملائیں اور اس کے لئے حکمتِ عملی اور انفرادی کوشش کو اپنائیں۔ اللہ پاک ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ شریعت کےمطابق حکمتِ عملی اپناتے ہوئے دوسروں کی اِصلاح کرنے کی کوشش کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضمون نگرانِ
شوریٰ کے بیانات اور گفتگو وغیرہ کی مدد سے تیار کرکے انہیں چیک کروانے کے بعد پیش
کیا گیا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دعوتِ
اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری
Comments