گزشتہ سے پیوستہ
٭مسلمان کو چاہئے کہ ہر معامَلے میں اللہ و رسول کے احکام کو ترجیح دے،
نیکی و بھلائی اور احکامِ خداوندی کی اِشاعت و نَفاذ میں کسی طرح کی مَلامت وغیرہ
کاخوف نہ رکھّے، قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے:( وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-) تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور کسی ملامت کرنے والے کی
ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے۔ (پ6،المآئدۃ:54)
٭مسلمان کو چاہئے کہ اپنے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر لَبَّیْک کہے اور ان کا ہر حکم دل و جان سے تسلیم کرے کیونکہ مسلمان کا اس بات پر ایمان ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اللہ پاک ہی کی اطاعت ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے:( مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-) ترجمۂ کنزُالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔(پ5،النسآء:80) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
٭مسلمان کو جب بھی کسی معامَلے
میں کسی سے اختلاف ہو تو اسے اللہ کریم اور اس کے رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حل
کرنا اور اپنا معامَلہ اللہ و رسول کے سِپُرد کر دینا چاہئے، کیونکہ ہر معاملے میں
اللہ و
رسول کی طرف رجوع لانا ہی بہتر اور اچّھے انجام کا ذریعہ ہے، چنانچہ ربِّ کریم کا فرمان ہے:( فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠(۵۹)) ترجَمۂ کنز الایمان:پھر
اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اُسے اللہ
و رسول کے
حضور رجوع کرو اگر اللہ و قیامت پر ایمان
رکھتے ہو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا۔(پ5،النسآء:59)
٭مسلمان کو ہمیشہ قراٰن و سنّت اور علمَائے حقّہ کی اِطاعت کرتے رہنا چاہئے نیز کسی بھی معاملے میں کفّار کی اطاعت و ہم نوائی سے بچنا چاہئے، اللہ کریم فرماتا ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ(۱۰۰)) تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر تم کچھ کتابیوں کے کہے پر چلے تو وہ تمہارے ایمان کے بعد تمہیں کافر کر چھوڑیں گے۔(پ4،اٰل عمرٰن:100) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
٭مسلمان کو احکام ِاسلام پر آدھا ادھورا نہیں بلکہ پورا
پورا ایمان ہونا چاہئے اور عمل و اعتقاد ہر ہر معاملےمیں ایمان
و اسلام کو ترجیح دینی چاہئے، ذرّہ بھر بھی شیطان کی پیروی نہیں کرنی چاہئے،رب تعالیٰ فرماتا ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪-وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸)) تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اسلام
میں پورے داخل ہواور شیطان کے قدموں پر نہ چلوبےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (پ2،البقرۃ:208)
٭ ہمیشہ اللہ کریم پر بھروسا اور توکّل کرنا مسلمان کی صِفات میں شامل ہونا چاہئے کیونکہ مسلمان کو اپنےربّ پرہی توکّل کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کریم کا ارشادِ گرامی ہے: (وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۲۲))ترجمۂ کنزالایمان: اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے۔(پ 4، اٰل عمرٰن:122) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
٭مسلمان کو ہمیشہ اللہ کریم کا
دیا ہوا حلال اور سُتھرا رزق کھانا چاہئے نیز رزق کم ہو یا زیادہ ہرحال میں شکر
ادا کرتے رہنا چاہئے، فرمانِ خداوندی ہے:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲)) تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو کھاؤ
ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔(پ2،البقرۃ:172)
٭مسلمان
کو دوسروں کا مال و اسباب ناجائز و باطل طریقے یعنی سُود، چوری، دھوکے اور
رشوت وغیرہ کے ذریعے حاصل کرنے سے بچنا چاہئے کیونکہ ربِّ کریم کا ارشاد ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ) تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ
کھاؤ۔ (پ5،النسآء:29)
٭مسلمان کو ہمیشہ اللہ کریم کے قَہروغضب سے
خوف زدہ رہنا چاہئے اور اس کی رحمت و کرم پانے کے لئے نیک اعمال، تقویٰ و
پرہیزگاری اور اللہ کریم کے نیک بندوں کا
وسیلہ بھی اپنانا چاہئے، اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵)) تَرجَمۂ
کنز الایمان:اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرواس امّید پر کہ فلاح
پاؤ۔ (پ6،المآئدۃ:35)
٭مسلمان کو ہمیشہ اچّھائی، بھلائی اور تقویٰ و
پرہیزگاری کے کاموں پر دوسروں کی مدد اور تعاوُن کرنا چاہئے ، بُرائی اور گناہ کے
کاموں پر ساتھ دینے سے باز رہنا
چاہئے، فرمانِ ربّ العزّت ہے: (وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪-)تَرجَمۂ کنز الایمان:اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور
گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔(پ6،المآئدۃ:2)
٭مسلمان اگر کوئی گناہ کربیٹھے تو اسے فوراً اللہ کریم کی بارگاہ میں پیارے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلہ سے توبہ و استغفار کرنی چاہئے کہ مسلمان کو یہی حکم ہے۔ فرمانِ ربِّ کائنات ہے: (وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴)) ترجمۂ کنزالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5،النسآء:64) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
٭مسلمان کو ہر طرح کی مصیبت، آزمائش، امتحان، رزق و مال کی تنگی وغیرہ پر صبر کرنا چاہئے اور دوسروں کو بھی صبر کی نصیحت کرنی چاہئے چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا- وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠(۲۰۰))ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اسلامی ملک کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امّید پر کہ کامیاب ہو۔(پ4،اٰلِ عمرٰن:200) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)ایک اور مَقام پر اللہ ربُّ العزّت ارشاد فرماتا ہے:( وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ) ترجمۂ کنز الایمان: اور صبر والے مصیبت اور سختی میں۔(پ2، البقرۃ:177) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
٭مسلمان کو جب
کوئی مصیبت یا پریشانی لاحق ہو تو اسے چاہئے کہ وہ صبر و نماز کے ذریعے مد د طلب کرے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳)) تَرجَمۂ کنز الایمان: اے
ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ
صابروں کے ساتھ ہے۔(پ2،البقرۃ:153)
٭مسلمان کو نفس کے وسوسوں اور خواہشات سے کنارہ کش رہنا چاہئے، اللہ کریم فرماتا ہے:( وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۴۱)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرااور نفس کو خواہش سے روکاتو بےشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔(پ30،النّٰزعٰت:40، 41) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)(بقیہ اگلے شمارے میں)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…راشد علی عطاری مدنی
٭…ناظم ماہنامہ فیضان مدینہ ،کراچی
Comments