رسول کریم ﷺ کے دستِ رحمت کا فیض پانے والے

رسولُ  اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دستِ رحمت کا فیض پانے والے

*مولانا اویس یامین عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024

قارئینِ کرام! اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں اپنے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اُسوۂ حسنہ (یعنی سیرت مبارکہ) کو ہمارے لئے بہترین نمونہ قرار دیا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ)

ترجَمۂ  کنزُالایمان: بیشک تمہیں رسولُ اللہ کی پیروی بہتر ہے۔([i])

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پوری زندگی پاکیزہ اَخلاق و عادات کا سرچشمہ تھی، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی کی عبادات (یعنی نماز، روزہ، حج وغیرہ) کے معاملات ہوں یا رہن سہن (مثلاً اُٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، سونے جاگنے، بات چیت وغیرہ) کے یا لَین دین (یعنی تجارت، قرض، امانت وغیرہ) کے معاملات ہوں سب میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ گرامی رہتی دنیا تک ایک بہترین رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ میں ہمیں بڑوں کی عزت و احترام کرنا اور چھوٹوں پر شفقت کرنا دونوں ہی چیزیں ملتی ہیں، اس مضمون میں ہم اُن مختلف واقعات کا بیان کریں گے کہ جن میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی کے سَر پر دستِ شفقت پھیرا، آیئے! 20ایمان افرواز واقعات پڑھ کر اپنے دلوں کو محبتِ رسول سے سرشار کیجئے۔

(1)حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ: حضرت اُمِّ سلَمہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے گھر تشریف فرما تھے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی کو بھی گھر میں داخل نہیں ہونے دینا، حضرت امام حُسین رضی اللہُ عنہ گھر میں داخل ہوگئے، تو میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رونے کی آواز سنی، میں نے گھر میں جھانک کر دیکھا تو امام حسین رضی اللہُ عنہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم روتے ہوئے ان کے سَر پر دستِ شفقت پھیر رہے تھے، میں نے عرض کی: اللہ پاک کی قسم! مجھے علم نہیں کہ یہ گھر میں کب داخل ہوئے؟ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جبریلِ امین علیہ السّلام گھر میں ہمارے ساتھ تھے، جبریلِ امین علیہ السّلام نے عرض کی: کیا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت حسین سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں میں دنیا میں اس سے زیادہ محبت کرتا ہوں، جبریلِ امین علیہ السّلام نے عرض کی: عنقریب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت ان کو کربلا کی زمین   پر قتل کردے گی، پھر جبریلِ امین علیہ السّلام نے کربلا کی مٹی اُٹھا کر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دکھائی۔([ii])

(2)حضرت محمد بن حاطِب جُمَحِی رضی اللہُ عنہما: آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میری والدہ حضرت اُمِّ جمیل رضی اللہُ عنہا میرے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ میں تمہیں حبشہ سے لے کر مدینۂ منورہ آرہی تھی تو مدینۂ منورہ سے ایک یا دو دن کے فاصلے پر رکی اور تمہارے لئے کھانا پکانے لگی کہ لکڑیاں ختم ہوگئیں، میں لکڑیاں تلاش کرنے نکلی تو تم نے ہانڈی گرا دی جو اُلٹ کر تمہارے بازو پر گری، میں تمہیں لے کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ محمد بن حاطب ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تمہارے منہ میں اپنا لُعابِ دہن ڈالا، تمہارے سَر پر ہاتھ پھیرا، تمہارے لئے بَرَکت کی دُعا فرمائی، اپنا لُعابِ دہن تمہارے ہاتھ پر لگایا اور یہ الفاظ پڑھے: اَذْهبِ الْبَاْسَ رَبَّ النَّاس وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ اِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا یعنی اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرما اور شفا عطا فرما کیونکہ تو ہی شفا دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں، ایسی شفا عطا فرما جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے۔ حضرت اُمِّ جمیل کہتی ہیں کہ میں تمہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس سے لے کر اُٹھی بھی نہیں تھی کہ تمہارا ہاتھ ٹھیک ہوگیا تھا۔([iii])

(3)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں عُقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چَرایا کرتا تھا، ایک دن رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے ساتھ میرے پاس سے گزرے اور فرمایا: اے لڑکے! کیا تمہارے پاس دودھ ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں، لیکن میں اس پر امین ہوں۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی ایسی بکری ہے جس پر نَر جانور نہ آیا ہو؟ تو میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس ایسی بکری لے آیا، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تو اُس کے تھنوں میں دودھ اُتر آیا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک برتن میں اُس کا دودھ دوہا، خود بھی پیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کو بھی پلایا، پھر بکری کے تھنوں سے فرمایا کہ سکڑ جاؤ تو بکری کے تھن سکڑ گئے۔ میں کچھ دیر بعد رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آیا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے  عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! مجھے بھی یہ سکھا دیجئے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے سَر پر دستِ شفقت پھیرا اور مجھے دُعا دی کہ اللہ پاک تم پر رحمتیں نازِل فرمائے،بے شک تم سمجھ دار لڑکے ہو۔([iv])

(4)حضرت محمد بن انس بن فَضالہ رضی اللہُ عنہما: آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّممدینہ تشریف لائے تو میں دو ہفتے کا تھا، مجھے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لایا گیا، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے سر پر دستِ شفقت پھیرا اور مجھے دعائے برکت سے نوازا۔([v]) آپ رضی اللہُ عنہ کے صاحبزادے حضرت یونس فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے لمبی عمر پائی تھی، آپ کے سر کے تمام بال بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوگئے تھے لیکن سر کے وہ بال جہاں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دستِ شفقت پھیرا تھا وہ سفید نہیں ہوئے تھے۔([vi])

(5)حضرت سائب بن یزید رضی اللہُ عنہما: آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: مجھے میری خالہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لے گئیں اور عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!میرا بھانجا بیمار ہے، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے سَر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لئے دعائے برکت فرمائی، پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وُضو فرمایا تو میں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وُضو کا پانی پیا، پھر میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیٹھ کے پیچھے کھڑا ہوا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت دیکھی۔([vii])

(6)حضرت قُرط بن ابورِمثَہ رضی اللہُ عنہما: آپ رضی اللہُ عنہ نے اپنے والد حضرت ابورِمثَہ رضی اللہُ عنہ کے ساتھ مدینۂ منورہ ہجرت کی، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابورِمثَہ رضی اللہُ عنہ سے پوچھا کہ یہ تمہارا بیٹا ہے؟ حضرت ابورِمثَہ رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: جی ہاں۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت قُرط رضی اللہُ عنہ کو بُلاکر اپنی گود مبارک میں بٹھا لیا اور ان کے لئے برکت کی دُعا کی، ان کے سَر پر دستِ شفقت پھیرا اور ان کے سر پر سیاہ عمامہ شریف باندھا۔ ([viii])

(7)حضرت رافع بن عَمرو رضی اللہُ عنہ: آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کم عمر لڑکا تھا، انصار کے کھجور کے درخت پر پتھر مار رہا تھا، تو ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں پیش کیا، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے فرمایا: اے رافع! ان کے درختوں پر پتھر کیوں مار رہے تھے؟ میں نے عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! بھوک لگ رہی تھی، کھانے کے لئے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: درخت پر پتھر نہیں مارو بلکہ جو کھجوریں خود نیچے گر جائیں ان میں سے کھالو۔  پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے سَر پر دستِ شفقت پھیرا اور میرے لئے یہ دعا فرمائی: اے اللہ! اس کا پیٹ بھر دے۔([ix])

(8)حضرت عبدالرحمٰن بن زید رضی اللہُ عنہ: آپ رضی اللہُ عنہ جب پیدا ہوئے تو آپ کے نانا جان حضرت ابولُبابہ رضی اللہُ عنہ نے آپ کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میں نے آج تک اتنے چھوٹے جسم والا بچہ نہیں دیکھا۔ مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بچے کو گھٹی دی، سَر پر دستِ شفقت پھیرا اور دعائے برکت سے نوازا۔(دعائے مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ) حضرت عبدالرحمٰن بن زید رضی اللہُ عنہ جب کسی قوم (Nation) میں ہوتے تو قد میں سب سے اونچے (Tall) نظر آتے۔([x])

(9)حضرت عبداللہ بن عَتبہ رضی اللہُ عنہ: آپ رضی اللہُ عنہ کے بیٹے حضرت حمزہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے آپ رضی اللہُ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کوئی بات یاد ہے؟ تو آپ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: مجھے یاد ہے کہ جب میں پانچ یا چھ سال کا تھا تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے پکڑ کر اپنی مبارک گود میں بٹھایا، میرے سَر پر اپنا دستِ شفقت پھیرا، میرے لئے اور میری بعد کی اولاد کے لئے برکت کی دعا کی۔([xi])

(10)حضرت سائب بن اَقرع رضی اللہُ عنہ: آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میری والدہ حضرت مُلَیکہ رضی اللہُ عنہا عطر بیچا کرتی تھیں، ایک بارآپ رضی اللہُ عنہا عطر بیچنے کے لئے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں توحضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے فرمایا: اے مُلَیکہ! کیا تجھے کوئی حاجت در پیش ہے؟ حضرت مُلَیکہ رضی اللہُ عنہا نے عرض کی: جی ہاں۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے بتاؤ تاکہ میں اُسے پورا کردوں۔حضرت مُلَیکہ رضی اللہُ عنہا نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ میرے بیٹے (سائب) کے لئے دعا فرما دیجئے، اس وقت حضرت سائب اپنی والدہ کے ساتھ تھے اور کم عمر لڑکے تھے، آپ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئے تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے سَر پر دستِ شفقت پھیرا اور آپ کے لئے برکت کی دُعا فرمائی۔([xii])

(11)حضرت سَلَمہ بن عُرادہ رضی اللہُ عنہ: امام اِبنِ اَثیر جزری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سَلَمہ بن عُرادہ اور حضرت عُیینہ بن حصن فزاری رضی اللہُ عنہما کے درمیان رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وُضو کے بچے ہوئے پانی کے حوالے سے نِزاع (جھگڑا)ہورہا تھا، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عُیینہ رضی اللہُ عنہ سے فرمایا: لڑکے کو وضو کرنے دو۔ حضرت سلمہ بن عُرادہ رضی اللہُ عنہ نے وُضو کیا اور جو پانی بچا وہ پی لیا، پھر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہُ عنہ کے سَر اور چہرے پر دستِ شفقت پھیرا۔([xiii])

(12)حضرت حنظلہ بن حِذیَم رضی اللہُ عنہما: آپ رضی اللہُ عنہ کے والد حضرت حِذیم نے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرے چند بیٹے ہیں، یہ سب سے چھوٹا بیٹا ہے اس کے لئے دعا فرمایئے کہ یہ کسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لڑکے! یہاں آؤ، میرا ہاتھ پکڑا، میرے سَر پر دستِ شفقت پھیرا اور یہ دُعا دی: اللہ پاک اس میں برکت عطا فرمائے۔ حضرت ذیال بن عبید رحمۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں: (دعائے نبوی کی یہ برکت ظاہر ہوئی کہ) میں نے حضرت حنظلہ رضی اللہُ عنہ کو دیکھا، جب ان کے پاس کسی سوجن والے شخص کو لایا جاتا، تو آپ رضی اللہُ عنہ اس پر اپنا ہاتھ پھیرتے اور بِسمِ اللہ کہتے تو اس کی سوجن ختم ہوجاتی۔([xiv])

(13)حضرت مَدلوک ابو سفیان رضی اللہُ عنہ: آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے آقاؤں کے ساتھ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں نے ان کے ساتھ اسلام قبول کرلیا، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے اپنے پاس بُلایا، میرے سَر پر اپنا دستِ شفقت پھیرا اور میرے لئے دعائے برکت فرمائی، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دستِ شفقت پھیرنے کی وجہ سے(بڑھاپے میں بھی) حضرت ابوسفیان رضی اللہُ عنہ کے سَر کے اگلے حصے کے بال کالے تھے اور ان کے علاوہ بقیہ تمام بال سفید تھے۔([xv])

(14)حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہُ عنہما: آپ رضی اللہُ عنہ کی والدہ حضرت زینب بنتِ حمید رضی اللہُ عنہا آپ کو لے کر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! اسے بیعت کرلیجئے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے سر پر دستِ شفقت پھیرا اور آپ کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔([xvi])

(15)حضرت محمد بن طلحہ بن عُبیدُاللہ رضی اللہُ عنہما: جب آپ رضی اللہُ عنہ پیدا ہوئے تو آپ کے والد حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ آپ کو لے کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے سر پر دستِ شفقت پھیرا اور آپ کا نام محمد رکھا۔([xvii])

(16)حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہُ عنہ: آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرا نام یوسف رکھا، مجھے اپنی گود مبارک میں بٹھایا اور میرے سَر پر دستِ شفقت پھیرا۔([xviii])

(17)حضرت قُرَّہ بن اِیاس رضی اللہُ عنہ: آپ رضی اللہُ عنہ بچپن میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے سَر پر دستِ شفقت پھیرا اور آپ کے لئے بخشش کی دُعا فرمائی۔([xix])

(18)حضرت عَمرو بن حُرَیث رضی اللہُ عنہما: آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میری والدہ حضرت عَمْرَہ بنتِ ہشام رضی اللہُ عنہا مجھے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لے کر گئیں تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے رزق میں برکت کی دعا سے نوازا۔([xx])

(19)حضرت اُمِّ جمیل بنتِ اَوس مَرَئی رضی اللہُ عنہما: آپ رضی اللہُ عنہا اپنے والدِماجد حضرت اوس کے ساتھ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں، آپ کے سر پر زمانۂ جاہلیت کے بال (زمانۂ جاہلیت میں لڑکیوں کے سر کے پیشانی کے کچھ بال لمبے رکھے جاتے تھے اور بقیہ بال مونڈ دیئے جاتے تھے) بنے ہوئے تھے تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے والد حضرت اوس سے فرمایا کہ اس کے سر سے زمانۂ جاہلیت کی نشانی دور کردو اور پھر اسے میرے پاس لے کر آؤ۔ میرے والد مجھے لے گئے اور میرے سَر سے زمانۂ جاہلیت کی نشانی دور کرکے مجھے دوبارہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوئے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے دعائے برکت سے نوازا اور میرے سَر پر اپنا دستِ شفقت پھیرا۔([xxi])

(20)حضرت جَمرہ بنتِ عبداللہ رضی اللہُ عنہما: آپ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے میرے والد حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی: میری بیٹی کے لئے برکت کی دُعا فرما دیجئے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے اپنی مبارک گود میں بٹھایا، میرے سَر پر اپنا دستِ شفقت پھیرا اور میرے لئے دعائے برکت فرمائی۔([xxii])

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا، دعا کرنا سنّت ہے۔([xxiii])

نیز ان واقعات سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہے کہ ہم اپنے سے چھوٹوں پر شفقت کرتے ہوئے پیار سے ان کے سَر پر ہاتھ پھیریں اور موقع کی مناسبت سے ان کو دعائیں بھی دیں۔ اللہ پاک ہمیں بھی رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کے ساتھ شفقت والا معاملہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([i])پ21، الاحزاب:21

([ii])معجم کبیر للطبرانی، 3/108، حدیث:2819-معرفۃ الصحابہ لابی نعیم، 2/12

([iii])مسند احمد، 24/191، حدیث:15453

([iv])مسند احمد، 6/82، حدیث:3598

([v])اسد الغابہ، 5/82

([vi])الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 6/4

([vii])بخاری، 1/89، حدیث:190

([viii])دیکھئے: الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، 5/391، 392

([ix])دیکھئے: ابوداؤد، 3/55، حدیث:2622-ترمذی، 3/44، حدیث:1292

([x])الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، 5/29

([xi])معجم اوسط، 1/99، حدیث:303

([xii])معرفۃ الصحابہ لابی نعیم، 2/497-5/311

([xiii])دیکھئے:اسد الغابہ، 2/503

([xiv])معجم کبیر، 4/13، حدیث:3501

([xv])دیکھئے: تاریخ کبیر، 7/361-تاریخ ابن عساکر، 57/191

([xvi])دیکھئے: بخاری، 2/145، حدیث: 2501

([xvii])الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 3/428

([xviii])ادب المفرد، ص113، رقم:372

([xix])مسند احمد، 26/182، حدیث:16250

([xx])ادب المفرد، ص 177، حدیث:647

([xxi])دیکھئے: اسد الغابہ، 1/225

([xxii])دیکھئے: اسد الغابہ، 7/56

([xxiii])مراٰۃ المناجیح، 4/308


Share