خواتین صلئہ رحمی کیسے بڑھا سکتی ہیں؟

نئے لکھاری

خواتین صلۂ رحمی کیسے بڑھا سکتی ہیں؟

ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ

فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے۔ معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے ہمارا مختلف لوگوں مثلاًالدین ، بہن بھائی ، اولاد رشتے دار پڑوسی دوست احباب اور دیگر لوگوں سےمیل جول رہتا ہے۔

ہمارے پیارے دینِ اسلام نے ہر ایک کے حقوق تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک حق جو سب کے مابین مشترک ہے اور جس کی بڑی اہمیت ہے وہ ہے صلۂ رحمی۔

صلۂ رحمی کا مطلب ہے رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنا ، یہ بہت بڑی نیکی اور بڑے ثواب کا کام ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے سے صلۂ رحمی کا خاتمہ ہوتا چلا جا  رہا ہے ، اس کے نظارے عام طور پر گھروں اور خاندانوں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔  خواتین اگر اپنی سوچ اور عمل میں تبدیلی لائیں تو معاشرے میں صلۂ رحمی کو بڑھا سکتی ہیں مثلاً :

*عورت اگر ماں ہے تو اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو ان کے  محرم رشتے داروں یعنی چچا تایا ، خالہ ، ماموں ،  پھوپھی ، دادا اور دادی وغیرہ سے ملنے سے نہ روکے ، بلکہ اگر بچے ان کی طرف کم جاتے ہوں تو ان کو خود بھیجے۔

*عورت اگر بہو ہے تو اپنی ساس کے ساتھ ساتھ اس کی بیٹیوں ،  بہنوں وغیرہ کے ساتھ اچھا سلوک رکھے تاکہ وہ لوگ اس گھر میں محبت و الفت سے آتے جاتے رہیں اور باہم صلۂ رحمی کی فضا عام ہو۔

*عورت اگر بہن ہے تو بھائیوں اور ان کی بیویوں سے مثبت رویہ رکھے ، بھائیوں اور بہنوں کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھے اور صلۂ رحمی کے شرعی حکم  پر عمل کرے۔

*عورت اگر ساس اور گھر کی سربراہ ہے تو سبھی بیٹوں ، بیٹیوں ، بہوؤں اور ان کے محرم رشتوں کا اکرام کرے ، سب بیٹیوں اور بیٹوں کو یکساں توجہ دے یوں نہ ہو کہ اگر ایک بیٹی اس کا خیال رکھتی ہے تو یہ بھی صرف اسی کا خیال رکھے ، بلکہ سب محرم رشتوں کا لحاظ رکھے اور ان کے ساتھ اچّھا سلوک کرے ۔

*عورت اگر مُدرّسہ یا معلّمہ ہے تو اپنی طالبات  اور درس و بیان میں شرکت کرنے والیوں کو صلۂ رحمی کا درس دے ، انہیں محارم رشتوں کی قدر سکھائے ، شادی بیاہ یا لین دین کے جھگڑوں  کی وجہ سے جو لوگ رشتے داروں کو چھوڑ دیتے ہیں ان کے  اس عمل کی حوصلہ شکنی کرے۔

*عورت کو اگر کبھی کوئی ایک یا دو خاندان کسی معاملے میں فیصلہ کرنے ، راہنمائی لینے کے لئے بلائیں تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے صلۂ رحمی کو پروان چڑھانے والی بات کرے ، ایسی کوئی بات نہ کرے کہ جس سے دو گھرانے یا خاندان  دور ہو جائیں۔

اُمِّ حسن عطّاریہ ، کراچی


Share

خواتین صلئہ رحمی کیسے بڑھا سکتی ہیں؟

نئے لکھاری

خواتین صلۂ رحمی کو کیسے بڑھا سکتی ہیں

ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ

اللہ پاک کا ارشاد ہے :

(وَ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  الَّذِیْ  تَسَآءَلُوْنَ  بِهٖ  وَ  الْاَرْحَامَؕ-) ترجمۂ کنز الایمان : اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو ۔  (پ4 ، النسآء : 1)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ پاک نے قراٰن ِ کریم میں اور اس کے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے اپنے مبارک فرامین میں صلۂ رحمی کا حکم فرمایا ہے ، صلۂ رحمی کا مطلب ہے محرم رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ ماں باپ ، بہن بھائی ، بیٹا بیٹی ، پھوپھی ، خالہ ، ماموں اور چچا تایا محارم رشتے داروں میں شامل ہیں۔ ہمارے معاشرے میں نا اتفاقی اور محبت و الفت میں کمی کی ایک بہت بڑی وجہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی کمی بھی ہے۔

 خواتین کا گھر میں ایک اہم کردار ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خواتین ہی مکان کو گھر میں تبدیل کرتیں اور  اس کو سنوارتی ہیں۔ صلۂ رحمی کو فروغ دینے میں ایک خاتون بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

عورت بحیثیت ماں اولاد کی پرورش میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے ، بے شک یہ بات حقیقت ہےکہ ماں کی گود بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اگر ماں اپنے بچّوں کو سکھائے کہ اپنے بھائی بہن ، چچا تایا ، ماموں خالہ اور پھوپھی وغیرہ سے صلۂ رحمی کا معاملہ رکھنا ہے ، ہر مصیبت و پریشانی کے وقت ان کے کام آنا ہے ، بلاعذرِ شرعی ان سے تعلقات کو کمزور نہیں کرنا ہے تو یہی اولاد آگے جاکر ایک بہترین اور پُر امن گھرانے اور معاشرے کی بنیاد رکھنے والی ہوگی جہاں رشتوں کی قدر اور صلۂ رحمی کی فضا ہوگی۔

اسی طرح عورت بیوی کی حیثیت سے شوہر کا یہ ذہن بنا سکتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں اور دیگر محرم رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے۔ شوہر کے گھرانے کو صلۂ رحمی کے ر نگ میں رنگنا صرف سسرال ہی نہیں بلکہ خود اس کے لئے بھی بہت مفید ، امن کا باعث ، گھریلو خوشیوں کا ذریعہ اور اچّھے بُرے وقت میں کام آنے والے لوگ مہیا کرنے والا ہوگا۔

نیز عورت ایک بہن کی حیثیت سے اپنی بہنوں اور بھائیوں کے گھروں کو آباد کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے ، بھائیوں کی طرف سے بہن کے حقوق کی ادائیگی میں کبھی کوئی غفلت ہوجائے تو بحیثیت بہن تعلقات کو ختم نہ کرے بلکہ صلۂ رحمی سے کام لے ، تعلقات کو جوڑے ، بھائیوں اور بہنوں کی کوتاہیوں کو نظرانداز کرے۔

 اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صلۂ رحمی کا جذبہ عطا فرمائے اور رشتے داروں کے ساتھ قطع تعلقی سے بچائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

بنتِ منصور

(درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ ، کراچی)


Share

خواتین صلئہ رحمی کیسے بڑھا سکتی ہیں؟

نئے لکھاری

خواتین صلۂ رحمی کیسے بڑھا سکتی ہیں؟

ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ

دورِ حاضر میں جہاں دیگر بہت سے مسائل نے اپنا ڈیرہ جمایا ہوا ہے وہاں ایک بڑا مسئلہ صلۂ رحمی کی کمی بھی ہے۔ صلۂ رحمی کی کمی کو دور کرنے میں خواتین ایک اچھا کردار ادا کر سکتی ہیں اور یہ مسئلہ آسانی سےحل ہو سکتا ہے۔

پہلے صلۂ رحمی کو سمجھیں ، صلۂ رحمی کے معنی رشتے کو جوڑنا ہے یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور  بھلائی پر مشتمل سلوک کرنا۔ ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحمی واجب ہے اور قطع رحمی یعنی (رشتہ توڑنا) حرام ہے۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : رشتہ کاٹنے والا جنّت میں نہیں جائے گا۔ (احترام مسلم ، ص 8)

خواتین صلۂ رحمی بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ خواتین کو چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور ذرا ذرا سی باتوں پر جھگڑنے کے بجائے درگزر سے کام لیں۔ ماں خوش اخلاق ہوگی تو بیٹی بھی اپنے گھر کو خوش اخلاقی کے ساتھ چلائے گی ۔

ایک عورت اگر بہو کی حیثیت سے ساس اور اس کے محارم رشتے داروں کا اکرام کرے ، ساس کے  رشتے داروں کے خلاف باتیں نہ کرے اور کبھی وہ آئیں تو انہیں  بوجھ نہ سمجھے اسی طرح ساس بھی بہو کی ماں ، بہن  اور دیگر محرم رشتے داروں کے معاملے میں بلاوجہ مخالفت سے کام نہ لے تو ایک نہیں بلکہ کئی گھرانے سکون میں آجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے کئی جھگڑے ایسے ہوتے ہیں کہ بہو کو ساس  پر اعتراض ہے   کہ میری بہن یا ماں کا آنا ان کو برداشت نہیں اور کہیں ساس کو اعتراض ہے کہ بہو ہر دوسرے ہفتے ماں سے ملنے چلی جاتی ہے۔

 اسی طرح نند اور بھابھی بھی اگر  ایک دوسرے کے لئے مثبت سوچ رکھیں تو صلۂ رحمی کرنے کا بہترین موقع ملے گا ، مثلاً نند بھائی اور بھابھی کے معاملات میں دخل نہ دے اور بھابھی شوہر اور اس کے رشتہ داروں کے تعلقات کو کمزور یاختم کرنے  میں نہ لگی رہے۔

دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رہیں ، گھر میں مدنی ماحول بنا کر رکھیں ، اِنْ شَآءَ اللہ نااتفاقی دور ہوگی ، آپس میں محبت بڑھے گی اور صلۂ رحمی کرنے کا جذبہ ملے گا۔

عبدالباسط عطّاری بن سرفراز عطاری

(درجۂ رابعہ ، مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی)


Share