اللہ پاک کی پسند

حدیث شریف اور اس کی شرح

اللہ پاک کی پسند

ماہنامہ ربیع الآخر1442ھ

*    ناصر جمال عطاری مدنی

اللہ کے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کا فرمان ہے : اَيُّهَا النَّاسُ! اِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ اِلَّا طَيِّبًا یعنی اے لوگو!اللہ طَیِّب ہے وہ صرف طَیِّب کوقبول فرماتا ہے۔ ([i])

 “ طَیِّب “ کامعنی پاکیزہ لیکن جب اس لفظ  کی نسبت اللہ کی  جانب ہو تو اس  سے مراد یہ ہوتی ہےکہ اللہ “ تمام عیوب سے پاک “ ہے۔ ([ii]) یہ   حدیثِ پاک  اسلام کے  بنیادی  قواعد میں سے ایک ہے  جس کےذریعہ ہمیں اللہ پاک کی  پاک پسند کالحاظ رکھنے کاحکم دیا گیاہے۔ تمام عیوب سے پاک  ربّ کی  پسند بھی  پاک ہے ، اللہ پاک  کو عقائد وہ پسند ہیں جو شرک و کفر اور بدعقیدگی سے پاک ہوں ، اُس کی بارگاہ میں مخلوق کے وہ  اعمال مقبول ہیں جودکھاوے کی  آمیزش سے پاک ہوں ، لباس وہ پسند فرماتاہےجومیل کچیل  اور گندگی سے پاک ہو ، اُسے دل ایسا پسند ہے جو حسد ، تکبّراوربغض و کینہ جیسی باطنی گندگی  سے پاک ہو ، الغرض زندگی کےہرمرحلے کو “ ربّ کا پسندیدہ “ بنانے کے لئے “ پاکیزگی “ شرط ہے ، قراٰنِ پاک میں بھی ستھرے لوگوں کو اللہ پاک کا پسندیدہ بندہ قرار دیا گیاہے ، چنانچہ ارشاد باری ہے :

( وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(۱۰۸) )  ترجمۂ کنزُالایمان : اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔ ([iii](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی دنیا میں تشریف آوری  کےعظیم مقاصد میں یہ بھی شامل تھا کہ امت کو نجاست و گندگی سے پاک فرمائیں چنانچہ حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ   علیہ السَّلام  نے تعمیرِکعبہ کے بعدیہ دعا فرمائی : (رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-) ترجمۂ کنز الایمان : اے رب ہمارے اور بھیج ان میں  ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب  اور پختہ علم سکھائے  اور انہیں خوب ستھرا فرمادے۔ ([iv])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یعنی ایسا رسول جو انہیں شرک ، بت پرستی ، ہرقسم کی نجاست و گندگی ، گھٹیا حرکتوں اور کوتاہیوں سےپاک کردے۔ ([v]) اللہ پاک نے دعائےابراہیم قبول فرمائی اور اُن کی اولاد میں ہمارے پیارےنبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو پیدا فرمایا۔

انسانی طبیعت اپنے  ارد گردسے بہت جلد اثر قبول کرتی ہے خواہ معاملہ معاشرتی برائیوں اوربدکرداریوں کا ہو یا کچرے ، غلاظت اور نجاست کے ڈھیروں کا ، انسان کی شخصیت پراُس کے اثرات ضرور مرتّب ہوتے ہیں۔ گھر اور علاقے کا صاف ستھرا ہونا افرادِ معاشرہ  کی نفاست ، اچھے مزاج ، پُروقارزندگی اور خوبصورت سوچ کی عکاسی کرتا ہےاسی  اہمیت کااحساس دلانے کےلئے اسلام نےصفائی ستھرائی  کی خوب تاکید کی ہے چنانچہ سرور ِعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےارشاد فرمایا ’’ اسلام صاف ستھرا (دین) ہے تو تم بھی نظافت حاصل کیا کرو کیونکہ جنت میں صاف ستھرا رہنے والا ہی داخل ہو گا۔ ([vi])ایک روایت میں ہے کہ جو چیز تمہیں مُیَسّر ہو اس سے نظافت حاصل کرو ، اللہ پاک نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں صاف ستھرے رہنے والےہی داخل ہوں گے۔ ([vii]) ايك موقع  پر یوں ارشاد فرمایا : جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری ہیئت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزت کریں۔ ([viii]) حضرت علامہ عبد الرّؤف مُناوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اس حدیث میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حُکّام اورعلماکو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔ ([ix]) اللہپاک نے ہمیں پاکیزہ غذا کھانے کاحکم دیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : (یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)) ترجمۂ کنز الایمان : اے لوگو کھاؤ جو کچھ زمین میں حَلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بیشک وہ تمہارا کُھلا دُشمن ہے۔([x])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیرِ صراطُ الجنان میں ہے کہ حلال و طیّب سے مُراد وہ چیز ہے جو بذات ِ خُود بھی حلال ہے ، جیسے بکرے کا گوشت ، سبزی ، دال وغیرہ اور ہمیں حاصل بھی جائز ذریعے سےہویعنی چوری ، رشوت ، ڈکیتی وغیرہ کے ذریعے نہ ہو۔ ([xi])

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک نے مؤمنین کو اُسی کا حکم دیاجس کارسولوں کوحکم دیا۔ اُس نے رسولوں سےفرمایا : ( یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-) ترجمۂ کنز الایمان : اے پیغمبرو پاکیزہ چیزیں کھاؤ اوراچھاکام کرو۔ ([xii])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اورمؤمنین سےفرمایا : (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ)  ترجمۂ کنز الایمان : اے ایمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں۔ ([xiii])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  پھر (حضورِ انور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے) لمبا سفر کرنے والے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ جس کے بال پراگندہ اوربدن غُبار آلُود ہے ، وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بُلند کرکے یا رَبّ! یا رَبّ! پُکار رہاہے حالانکہ اس کا کھانا حرام ، پینا حرام ، لباس حرام اورغذا حرام ہے تو اس کی دُعاکیسے قبول ہوسکتی ہے؟([xiv])حضرت سیِّدُناسعدرضی اللہ عنہ نےنبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں عرض کی : آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  دُعا فرمائیے کہ اللہ میری دُعا قبول فرمایا کرے۔ حضور نبیِّ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان سے ارشاد فرمایا : اپنے کھانے کوپاکیزہ بناؤتمہاری دُعائیں قبول ہوا کریں گی۔ ([xv])اعلیٰ حضرت کے والدِ گرامی حضرت علامہ مولانا نقی علی خان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : کھانے پینے لباس وکسب میں حرام سے اِحتیاط کرے کہ حرام خوار وحرام کار (حرام کھانے والے اور حرام کام کرنے والے)کی دُعا اکثر  رَد ہوتی ہے۔ ([xvi])

مذکورہ  تفصیل  یہ  واضح کرنے کے لئے کافی ہے  کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر طرح کی صفائی کا حکم دیا ہے خواہ جسمانی ہو یا روحانی ، فرد کی ہو یا معاشرے کی ، گھر کی ہو یا مسجد کی یا پھر محلے کی ہو ، الغرض اسلام جسم وروح ، دل ودماغ  اور قرب وجوار کو ستھرا رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ اسے ہر جگہ ترتیب و سلیقہ اورنفاست وعمدگی مطلوب ومحبوب اورگندگی وناپاکی اور غلاظت ونجاست ناپسند ہے۔

تلفظ درست کیجئے!

تلفظ           صحیح تلفظ

ِ۱غلاط                     اَغلاط

باہِر                                   باھَر

بُخَلْ                                بُخْلْ

بَرْکت                           بَرَکت

تَرجَمانی                   ترجُمانی

(اردولغت ، جلد 2 ، 5 ، 6 )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   ذمہ دار شعبہ فیضانِ اولیاو علما ، المدینۃالعلمیہ کراچی



([i])مسلم ، ص393 ، حدیث : 1015

([ii])شرح مسلم للنووی ، 7 / 100

([iii])پ11 ، التوبۃ : 108

([iv])پ1 ، البقرۃ : 129

([v])تفسیرخازن ، 1 / 92

([vi])کنز العمال ، 5 / 123 ، حدیث : 25996

([vii])جمع الجوامع ، 4 / 115 ، حدیث : 10624

([viii])جامع صغیر ، ص22 ، حدیث : 257

([ix])فیض القدیر ، 1 / 249

([x])پ2 ، البقرۃ : 168

([xi])صراط الجنان ، پ2 ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : 168 ، 1 / 268

([xii])پ18 ، المؤمنون : 51

([xiii])پ2 ، البقرۃ : 172

([xiv])مسلم ، ص393 ، حدیث : 1015

([xv])معجم اوسط ، 5 / 34 ، حدیث : 6495

([xvi])فضائلِ دعا ، ص60


Share