رسول اللہ ﷺ کا کلمہ اَبغَض / اُبغضُ سے تربیت فرمانا

نئے لکھاری

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا کلمہ ”اَبغَض، اُبغضُ“ سے تربیت فرمانا

*محمد عبد المبین عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنی اُمت کی راہنمائی کے لئے مختلف مواقع پر نصیحتیں ارشاد فرمائیں، جن کا مقصد انسان کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کی طرف راہنمائی کرناتھا۔ وہ فرامین زندگی کے مختلف پہلوؤں کو محیط ہیں اور ہر مسلمان کے لئے ہدایت و راہنمائی کا ذریعہ ہیں۔یہ ہدایات، عبادات، معاشرت اور روحانی اصلاح پر مبنی ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنی زندگی کو دینِ اسلام کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔ ان میں سے ایک پہلو رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا کلمہ اَبْغَض، اُبْغِضُ کے ذریعے اپنی امت کو سمجھانا ہے۔ ان میں سے 4 فرامینِ مصطفٰے  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  آپ بھی پڑھئے :

(1)اِنَّ اَبْغَضَ الرِّجَالِ اِلَى اللّٰهِ اَلْاَ لَدُّ الْخَصْمُ یعنی ا کی بارگاہ میں بہت ناپسندیدہ شخص زیادہ سخت جھگڑالو ہے۔

(مسلم،ص1099، حدیث: 6780)

اس حدیث میں جھگڑالو شخص کی مذمت بیان کر کے معاشرے میں امن و سلامتی کا درس دیا گیا ہے۔

(2)اَلْاَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ اِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ اِلاَّ مُنَافِقٌ مَنْ اَحَبَّهُمْ اَحَبَّهُ اللهُ وَمَنْ اَبْغَضَهُمْ اَبْغَضَهُ ‏اللهُ

یعنی انصار سے مؤمن ہی محبت رکھے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا اور جو اِن سے محبت کرےاللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے اور جو ان سے بغض رکھےاللہ پاک اسے ناپسند فرماتاہے۔‏‏

( بخاری،2/555،حدیث: 3783 )

اس حدیثِ پاک میں انصار صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور یہ تاکید کی گئی ہے کہ ہم بھی انصار صحابۂ کرام سے محبت رکھیں اور ان سے بغض رکھنے پر وعید بیان کی گئی ہے۔

(03) اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَى اللہِ الطَّلَاقُ ‏یعنی ناپسندیدہ ترین حلال چیز ،ا کے نزدیک طلاق ہے۔

(ابن ماجہ، 2/500، حدیث:2018)

یہاں پر کلمہ اَبغَضُ کے ذریعے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ طلاق ایک ناپسندیدہ کام ہے، اس سے رشتے ٹوٹتے ہیں،  اس لئے  رب تعالیٰ کو پسند نہیں۔

(04) اِنَّ اللَّهَ تَعَالٰی اِذَا اَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَيَقُولُ: اِنِّي اُبْغِضُ فُلَانًا فَاَبْغِضْهُ فَيُبْغِضُهُ ‏جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي اَهْلِ السَّمَاءِ اِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ فُلَانًا فَاَبْغِضُوهُ فَيُبْغِضُہُ اَھْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ تُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْاَرْضِ

یعنی اللہ پاک جب کسی بندے کو ناپسند فرماتاہے تو جبریل علیہ السّلام کو بلاکر فرماتا ہے کہ میں فلاں شخص کو ناپسند کرتا ہوں لہٰذا تم بھی اسے ناپسند کرو ۔ چنانچہ جبریل علیہ السّلام بھی اسے ناپسند کرتے ہیں پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ پاک فلاں شخص کو ناپسند فرماتا ہے لہٰذا تم لوگ بھی اسے ناپسند کرو۔ پھر آسمان والے بھی اسے ناپسند کرتے ہیں پھر زمین میں بھی اس کے لئے ناپسندیدگی رکھ دی جاتی ہے ۔

‏‏(مسلم، ص1086، حدیث: 6705)

مذکورہ حدیث پاک میں ہمارے لئے بے شمار عبرت کے مدنی پھول ہیں۔بہت بدنصیب ہیں وہ لوگ جن سے ان کا ربّ کریم ناراض ہوجاتا ہے ، اُن کا خالق ومالک انہیں ناپسند فرماتا ہے، اُس کے فرشتے ناپسند کرتے ہیں ، دنیا میں اس کے لئے ناپسندیدگی رکھ دی جاتی ہے ۔ یقیناً ایسے لوگوں کی دنیا بھی تباہ ہوگئی اور آخرت بھی برباد ہوگئی ، ہمیشہ ہمیشہ کی ذِلَّت ورُسوائی اُن کا مقدر بن گئی۔

 مگر آہ! ہمیں نہیں معلوم کہ ہم اللہ پاک کے پسندیدہ بندے ہیں یا نہیں؟ یقیناً اپنی زندگی کو شریعت کے مطابق گزارنے میں ہی اللہ و رسول کی رضا ہے۔کاش ! ہم بھی اسی میں اپنی زندگی بسر کرنے والے بن جائیں، اپنے ہر ہر کام کو سنتوں کے مطابق گزارنے والے بن جائیں۔

ان احادیثِ کریمہ کے علاوہ بھی رسولِ اکرم، نورِ مجسم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کلمہ اَبْغَضَ، اُبْغِضُ کے ذریعے امت کو نصیحتیں فرمائی ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکامات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*( درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فيضانِ امام غزالی فیصل آباد)


Share