عظیم ہستیوں کا قرب پانے کا سب سے بڑا ذریعہ

تفسیرِ قراٰنِ کریم

عظیم ہستیوں کا قرب پانے کا سب سے بڑا ذریعہ

مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ ربیع الآخر1442ھ

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ(۶۹)   ترجمہ : اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔        (پ5 ، النسآء : 69)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ثوبان  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  تاجدارِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے ساتھ کمال درجے کی محبت رکھتے تھے اور انہیں جدائی کی تاب نہ تھی۔ ایک روز اس قدر غمگین اور رنجیدہ حاضر ہوئے کہ چہرے کا رنگ بدل گیاتھا تو رسولِ کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے دریافت فرمایا ، آج رنگ کیوں بدلاہوا ہے؟ عرض کیا : نہ مجھے کوئی بیماری ہے اورنہ درد سوائے اس کے کہ جب حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سامنے نہیں ہوتے تو اِنتہا درجہ کی وحشت و پریشانی ہوجاتی ہے ، جب آخرت کو یاد کرتا ہوں تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہاں میں کس طرح دیدار پاسکوں گا؟ آپ اعلیٰ ترین مقام میں ہوں گے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے جنت بھی دی تو اس مقام ِعالی تک رسائی کہاں؟

اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔        (خازن ، النسآء ، تحت الآیۃ : 69 ، 1 / 400)

اور انہیں تسکین دی گئی کہ منزلوں کے فرق کے باوجود فرمانبرداروں کو نبیِّ کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی بارگاہ میں حاضری اور مَعِیَّت کی نعمت سے سرفراز فرمایا جائے گا اور انبیاء  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کے مخلص فرمانبردار جنت میں اُن کی صحبت و دیدار سے محروم نہ ہوں گے۔ حدیث شریف میں ہے : آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرے۔            (ابو داؤد ، 4 / 429 ، حدیث : 5127)

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا شوقِ رفاقت :

اس سے معلوم ہو اکہ حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی رفاقت صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بہت محبوب تھی اور دنیا کی رفاقت کے ساتھ ساتھ اُخروی رفاقت کا شوق بھی ان کے دلوں میں رچا بسا تھا اور وہ ا س کے لئے بڑے فکر مند ہوا کرتے تھے۔ ذیلی سُطور میں صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے شوقِ رفاقت کے چند اور واقعات ملاحظہ ہوں ، چنانچہ حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں : “ میں رات کو رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے وضو کے لئے پانی لایا کرتا اور دیگر خدمت بھی بجا لایا کرتا تھا۔ ایک روز آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے مجھ سے فرمایا : سَلْ (مانگو)۔ میں نے عرض کیا : “ اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ “ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے جنت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں۔ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا : “ اس کے علاوہ اور کچھ؟ “ میں نے عرض کی : میرا مقصود تو وہی ہے۔ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا : “ تو پھر زیادہ سجدے کرکے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔ “ (مسلم ، ص199 ، حدیث : 1094)

جنگِ اُحد کے موقع پر حضرت اُمِّ عمارہ  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عرض کی : یارسولَ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! آپ دعا فرمائیے کہ اللہ  تعالیٰ ہم لوگوں کو جنت میں آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت گزاری کا شرف عطا فرمائے۔ اس وقت آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ان کے لئے اور ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کے لئے اس طرح دعا فرمائی کہ “ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھُمْ رُفَقَائِیْ فِی الْجَنَّۃِیااللہ  عَزَّوَجَلَّ ! ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے۔ حضرت اُمِّ عمارہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا  زندگی بھر علانیہ یہ کہتی رہیں کہ رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی اس دعاکے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت مجھ پر آجائے تو مجھ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

(طبقات ابن سعد ، 8 / 305)

عاشقوں کے امام حضرت بلال   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی زوجہ شدتِ غم سے فرمانے لگیں : ہائے غم۔ آپ   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے فرمایا : واہ! بڑی خوشی کی بات ہے کہ کل ہم اپنے محبوب آقا  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اور ان کے اصحاب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ملاقات کریں گے۔

(سیرت حلبیہ ، 1 / 422)

ایک جنگ کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے حضرت ہاشم بن عتبہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے فرمایا : “ اے ہاشم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ! تم جنت سے بھاگتے ہو حالانکہ جنت تو تلواروں (کے سائے) میں ہے۔ آج میں اپنی محبوب ترین ہستیوں محمد مصطفیٰ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کروں گا۔ چنانچہ اسی جنگ میں آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے شہادت پائی۔ (اسد الغابہ ، 4 / 144)

جب حضرت خباب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  بیمار ہوئے تو صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے (جب انہوں نے دیکھا کہ یہ اسی مرض میں وفات پا جائیں گے) تو فرمایا : “ تم خوش ہو جاؤ ، کل تم محبوب ترین ہستی محمد مصطفیٰ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اور ان کے صحابہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ملاقات کرو گے۔ (البدایہ و النہایہ ، 5 / 417) اللہ تعالیٰ ان مقدس ہستیوں کے شوقِ رفاقت کے صدقے ہمیں بھی اپنے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی رفاقت قبر و حشر اور جنت میں نصیب فرمائے۔ اٰمین۔

اس آیت میں صِدّیقین کا لفظ آیا ہے۔ صدیقین انبیاء  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کے سچے مُتَّبِعین کو کہتے ہیں جو اخلاص کے ساتھ اُن کی راہ پر قائم رہیں۔ اس کے بہت سے درجات  ہیں : (1)گفتگو میں صدق۔ (2)نیت و ارادہ میں صدق۔ (3)عَزم میں صدق۔ (4)عزم کو پورا کرنے میں صدق۔ (5)عمل میں صدق۔ (6)دین کے تمام مقامات کی تحقیق میں صدق۔ ان معانی کے اعتبار سے صادقین کے بہت سے درجات ہیں۔ شہداء سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے راہِ خدا میں جانیں دیں اور صالحین سے مراد وہ دیندار لوگ ہیں جو حق العِباد اور حقُّ اللہ دونوں ادا کریں اور اُن کے احوال و اعمال اور ظاہر و باطن اچھے اور پاک ہوں۔ انبیاء و صدیقین و شہداء و صالحین  کا جنت میں قرب پانے کا قرآن میں بیان کردہ  سب سے بڑا اور مفید طریقہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی کامل اطاعت ہے اور کامل اطاعت یہ ہے کہ ظاہر و باطن ، خلوت و جلوت میں عقائد ، عبادات ، معاملات ، معاشرت ، اخلاقیات ، آداب و قلبی احوال ، حلال و حرام کے جملہ احکام میں نبیِّ کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی سچی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   دارالافتاء اہلِ سنّت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code