کتابوں کے حقوق

نئے لکھاری

کتابوں کےحقوق

*محمد اویس مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء

اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا پھر انسانوں میں سے علم والوں کو درجوں بلندی عطا فرمائی ۔ علم کے حصول کے مختلف ذرائع میں سے ایک ذریعہ کتابیں ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے جس نے بھی کتابوں کے حقوق کا تحفظ کیا اسے اتنا ہی بڑا رتبہ نصیب ہوا۔آیئے کتابوں کے 4 حقوق پڑھئے اور عمل کیجئے:

(1) کتابوں کا ادب :

حافظ ملت عبد العزیز  رحمۃُ اللہِ علیہ  قیام گاہ پر ہوتے یا درسگاہ میں کبھی کوئی کتاب لیٹ کر یا ٹیک لگا کر نہ پڑھتے نہ پڑھاتے بلکہ تکیہ یا تپائی (ڈیسک) پر رکھ لیتے قیام گاہ سے مدرسہ یا مدرسے سے قیام گاہ کبھی کوئی کتاب لے جانی ہوتی تو داہنے ہاتھ میں لے کر سینے سے لگا لیتے کسی طالب علم کو دیکھتے کہ کتاب ہاتھ میں لٹکا کر چل رہا ہے تو فرماتے: کتاب جب سینے سے لگائی جائے گی تو سینے میں اترے گی اور جب کتاب کو سینے سے دور رکھا جائے گا تو کتاب بھی سینے سے دور ہوگی۔

(فیضان حافظ ملت، ص 11)

(2) کتابیں رکھنے کی ترتیب:

لغت و نحو و صرف کا ایک مرتبہ ہے ،ان میں ہر ایک کی کتاب کو دوسرے کی کتاب پر رکھ سکتے ہیں اور ان سے اوپر علم کلام کی کتابیں رکھی جائیں، ان کے اوپر فقہ اور احادیثوں مواعظ و دعوات ماثورہ(قرآن و حدیث سےمنقول دعائیں ماثورہ کہلاتی ہیں) فقہ سے اوپر اور تفسیر کو ان کے اوپر اور قرآن مجید کو سب کے اوپر رکھیں۔قرآن مجید جس صندوق میں ہو اس پر کپڑا وغیرہ نہ رکھا جائے۔

(بہار شریعت، 3/495)

(3)پاکیزگی کا خیال رکھنا:‏

کتابوں کو چھوتے وقت بدن، لباس اور ماحول کی پاکیزگی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، بزرگان دین  رحمہم اللہِ المبین کو وضو سے اس وجہ سے محبت تھی کہ علم نور ہے اور وضو بھی نور، پس وضو کرنے سے علم کی نورانیت مزید بڑھ جاتی ہے، چنانچہ حضرت سیدنا شیخ شمس الائمہ حلوانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے فرمایا کہ میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کرنے کے سبب حاصل کیا وہ اس طرح کے میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔

(راہ علم، ص 33)

(4) کتابوں پر چیزیں رکھنا کیسا؟

ایک حق یہ ہے کہ کتاب پر قلم، دوات، موبائل یا دیگر چیزیں رکھنے سے بچیں چنانچہ حضرت امام برہان الدین رحمۃُ اللہِ علیہ  اپنے مشائخ میں سے کسی بزرگ  رحمۃُ اللہِ علیہ  سے حکایت بیان کرتے تھے کہ ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے تو شیخ نے ان سے فارسی میں فرمایا: برنیابی، یعنی تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ امام اجل فخر الاسلام حضرت قاضی خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرمایا کرتے تھے کہ کتابوں پر دوات وغیرہ رکھتے وقت اگر تحقیر علم کی نیت نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے مگر اولیٰ یہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔(راہ علم، ص 34)

لہٰذا ہر اس عمل سے بچا جائے جو کتاب کے بوسیدہ ہونے اور بے ادبی ہونے کا سبب بنے مثلاً کتابوں کی طرف پاؤں کرنے، حتی الامکان کتابوں کے کونے فولڈ کرنے، ان پر قلم اور دیگر اشیاء رکھنے سے بچا جائے، وقتاً فوقتاً ان کی صفائی کا خیال رکھا جائے اور کتاب کی جِلد خراب ہونے کی صورت میں اس کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے اور کتاب کے علم کو کما حقہ سمجھ کر اسے آگے پھیلایا جائے۔

اللہ پاک ہمیں کتابوں کا ادب و احترام اور ان کے حقوق پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ( مدرّس جامعۃُ المدینہ سادھوکی لاہور )


Share