تذکرۂ صالحات

حضرت خَولہ بنتِ ثَعلبہ رضی اللہُ عنہا

* مولانا عمران اختر عطّاری مدنی

ماہنامہ فروری2022

حضرت خَولہ بنتِ ثَعلبہ  رضی اللہُ عنہا جن کا نام تصغیر کے ساتھ خُوَیلہ بھی ذکر کیا گیا ہے ، آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ خَزْرج سے تھا ، لہٰذا آپ کو انصاریہ صحابیہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت خولہ  رضی اللہُ عنہا  کا نسب اگرچہ بنتِ مالک بن ثعلبہ بن اَصرَم بیان کیا گیا ہے[1] مگر دادا کی طرف نسبت کی وجہ سے آپ کو بنتِ ثعلبہ کہا جاتا ہے۔ [2] آپ  رضی اللہُ عنہا  مشہور صحابیِ رسول حضرت عُبادہ بن صامِت  رضی اللہُ عنہ  کے بھائی اَوس بن صامت  رضی اللہُ عنہ کی زوجہ ہیں۔ [3] آپ کی امتیازی شان یہ ہے کہ آپ کی ازدواجی زندگی(Married Life) میں پیش آنے والی ایک مشکل کا حل اللہ پاک نے قراٰن ِ پاک میں بیان فرمایا جیساکہ خود فرماتی ہیں کہ بخدا سورۂ مُجادَلہ کی ابتدائی آیات میرے اور میرے شوہر اَوْس ہی کے بارے میں اللہ پاک نے نازل فرمائی ہیں۔ [4]اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ غصہ کی حالت میں ان کے شوہر اَوس بن صامت  رضی اللہُ عنہ نے انہیں کہہ دیا کہ تو مجھ پر میری ماں کی طرح ہے۔ [5] یاد رہے کہ بیوی سے اس طرح کے کلمات کہنا ظِہار کرنا کہلاتا ہے۔ [6]یہ کلمات حضرت خَولہ کے شوہر نے اگر چہ زمانۂ اسلام میں کہے تھے مگر زمانۂ جاہلیت میں طلاق شمار کئے جاتے تھے جیساکہ حضرت ابنِ عباس  رضی اللہُ عنہما  فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں ظِہار سے عورت اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی تھی اور اسلام میں سب سے پہلے ظہار کرنے والے اوس ہی تھے۔ [7]

جب حضرت اَوس  رضی اللہُ عنہ  نے یہ الفاظ کہے تو حضرت خولہ بنتِ ثعلبہ  رضی اللہُ عنہا  نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر سارا ماجرا عرض کیا اور حکمِ قراٰنی اترنے تک وہیں رُکی رہیں ، حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر (وحی والی) مخصوص کیفیت طاری ہوئی اور اس حالت کے ختم ہونے پر فرمایا : اللہ پاک نے تیرے اور تیرے شوہر کے بارے میں حکم نازل فرما دیا پھر آپ نے سورۃُ المجادلہ کے آغاز “ قَدْ سَمِعَ اللّٰهُسے “ عَذَابٌ اَلِیْمٌتک آیات تلاوت فرمائیں(جن میں ظِہار کے احکام بیان ہوئے)۔ [8]

بارگاہِ الٰہی سے ملنے والی اسی شان کی بِنا پر قدردان لوگ آپ کو عزّت کی نگاہ سے دیکھتے جیساکہ ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  لوگوں کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ آپ  رضی اللہُ عنہا  نے روک لیا ، حضرت عمر رضی اللہُ عنہ ان کے قریب ہوئے ، سر جھکایا اور ان کی بات پوری ہونے تک کھڑے رہے ، انہوں نے سخت انداز میں(نصیحت والی ) باتیں کیں ، ان کے جانے کے بعد ایک شخص نے عرض کی : امیرُ المؤمنین! آپ نے اس بڑھیا کے لئے جوانانِ قریش کو یہاں کھڑا رکھا؟ آپ  رضی اللہُ عنہ نے فرمایا : کیا جانتے نہیں یہ کون تھیں؟ عرض کی : نہیں۔ فرمایا یہ خولہ بنتِ ثعلبہ تھیں جن کی فریاد اللہ پاک نے سُنی ، بخدا اگر یہ رات تک بھی نہ جاتیں تو میں بھی ان کی بات پوری ہونے تک یہاں سے نہ جاتا۔ [9]

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو[10] اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ فیضانِ صحابیات و صالحات ، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی



[1] اسد الغابہ ، 7 / 102 ، رقم : 6879

[2] فتح الباری ، 14 / 319 ، تحت الحدیث : 7389

[3] الاستیعاب ، 4 / 390 ، رقم : 3354

[4] اسد الغابہ ، 7 / 102 ، رقم : 6879

[5] در منثور ، 8 / 70 ، 71

[6] ظِہار کے تفصیلی مسائل جاننے کے لئے بہارِ شریعت حصہ 8 کا مطالعہ کیجئے۔

[7] معجم کبیر ، 11 / 211

[8] در منثور ، 8 / 70 ، 71 ملتقطاً

[9] در منثور ، 8 / 70ماخوذاً

[10] ہمیں آپ کی تاریخ وصال اور مدفن شریف کے بارے میں نہیں مل سکا۔


Share

Articles

Comments


Security Code