انٹرویو

رکنِ شوریٰ حاجی  محمد بلال عطّاری(دوسری اور آخری قسط)

ماہنامہ فروری2022

مہروز عطّاری : سلسلہ انٹرویو کی گزشتہ قسط میں آپ نے فرمایا تھا کہ دینی کام کرنے والے اسلامی بھائیوں اور بہنوں کے لئے سہولیات اور تربیت کے مواقع ماضی سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس کی کچھ مزید وضاحت فرمادیں تو نوازش ہوگی۔

حاجی بلال عطّاری : دعوتِ اسلامی کے ماضی اور حال میں ایک نمایاں  اورمنفرِد فرق یہ ہے کہ اب دینی کاموں سے متعلّق ہماری اکثر چیزیں تحریر کی صورت میں (Documented) موجود ہیں۔ بارہ دینی کاموں سے متعلق بلکہ ہر دینی کام سے متعلق الگ الگ رسالہ موجود ہے جس میں اس دینی کام کے فوائد ، طریقہ اور احتیاطیں درج ہیں۔ اس وقت دعوتِ اسلامی کے تقریباً 80شعبہ جات ہیں اور اکثر شعبہ جات کے مدنی پھول تحریری صورت میں موجود ہیں۔ امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  نے جب دعوتِ اسلامی کا کام شروع کیا تو اس وقت اس طرح کا ایک پرچہ بھی موجود نہیں تھا جبکہ آج اَلحمدُ لِلّٰہ ہمارا طریقۂ کار تقریبا ً تحریری صورت میں موجود ہے۔ آپ اجتماعی صورت میں تربیت کے مواقع دیکھیں ، مدنی چینل کے ذریعے ملنے والی تربیت کو دیکھیں یا تحریری صورت میں راہنمائی (Guideline) کو دیکھیں ، دینی کاموں کی تربیت کے جو مواقع آج دستیاب ہیں وہ پہلے مُیسّر نہیں تھے۔

مہروز عطّاری : بچپن میں آپ کیا بننا چاہتے تھے؟

حاجی بلال عطّاری : بچپن میں فوجی بننے کی خواہش تھی اور گھر کا ماحول بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

مہروز عطّاری : آپ کی شادی کب ہوئی ؟

حاجی بلال عطّاری : 2006ء میں جمعۃ ُالمبارَک کے دن غالباً8 یا 9 ربیعُ الاوّل کو عالَمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  نے نکاح پڑھایا تھا۔

مہروز عطّاری : آپ کے کتنے شہزادے اور شہزادیاں ہیں؟

حاجی بلال عطّاری : دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

مہروز عطّاری : آپ نے پہلا بیان کب کیا ؟

حاجی بلال عطّاری : دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہوتے ہی درس کا سلسلہ تو شروع کردیا تھا لیکن ان دنوں بیان کرنے کے مواقع کم ہوتے تھے ، ہفتہ وار اجتماع میں دو بیان ہوتے تھے۔ میری یادداشت کے مطابق 1992ء میں مجھے سرگودھا کے ہفتہ وار اجتماع میں پہلا بیان کرنے کا موقع ملا تھا۔

مہروز عطّاری : امیر ِاہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  سے آپ کی پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی؟

حاجی بلال عطّاری : 1990ء یا 1991ء میں امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  سرگودھا تشریف لائے اور سیّد حامد علی شاہ صاحب والی مسجد میں سنّتوں بھرا بیان فرمایا۔ اس موقع پر مجھے بیان میں شرکت اور پھر قطار میں لگ کر ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ ملاقات سے پہلے ذہن میں بہت کچھ تھا کہ اپنے لئے دعا کا عرض کروں گا اور یہ یہ بات کروں گا ، لیکن جیسے جیسے قطار آگے بڑھتی رہی میرے ذہن سے سب کچھ نکل گیا اور ملاقات کے موقع پر سلام کے علاوہ کچھ اور عرض کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آج بھی امیرِ اہلِ سنّت کی بارگاہ میں حاضری کے موقع پر یہی کیفیت ہوتی ہے ، آپ کچھ دریافت فرمائیں تو مختصر الفاظ میں عرض کردیتا ہوں ورنہ خود سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی۔

مہروز عطّاری : امیرِ اہلِ سنّت سے بیعت کب ہوئے اور ان کی کون سی بات میں آپ کے لئے بہت کشش ہوتی ہے؟

حاجی بلال عطّاری : بیعت تو پہلی بار ملاقات کے موقع پر کرلی تھی۔ اپنی طرف کھینچ لینے والی امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کی عادات و صفات کو بیان کرنا مشکل ہے کیونکہ ایسی کثیر صفات ہیں اور ہر صفت ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ میں ذاتی طور پر آپ کی جس عادت سے متأثّر ہوا وہ اسلامی بھائیوں کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی ہے۔ ابھی ستمبر 2021ء میں آپ مرکزی مجلسِ شوریٰ کے مدنی مشورے میں تشریف لائے اور اپنے ملفوظات سے نوازا۔ اس کے اگلے دن آپ کا صَوتی پیغام (Voice Message) تشریف لایا جس میں پہلے تو عاجزانہ معذرت فرمائی کہ اگر میری کوئی بات بُری لگی ہو تو معذرت چاہتا ہوں ، اس کے بعد اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ آپ حضرات نے مجھے موقع فراہم کیا ، اس کے بعد یاد دہانی کروائی کہ گزشتہ روز یہ یہ باتیں ہوئی تھیں جن پر آپ نے عمل کرنا ہے۔

امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کا یہ دل جیتنے والا انداز خاص ہمارے ساتھ ہی نہیں تھا بلکہ یہ آپ کی عادات و صفات میں سے ایک ہے جس کا فیضان عوام و خواص سب کو ملتا ہے۔

مہروز عطّاری : مرحوم نگرانِ شوریٰ حاجی محمد مشتاق عطّاری رحمۃُ اللہِ علیہ سے متعلّق اپنی کچھ یادداشتیں ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین کے ساتھ شیئر کردیں۔

حاجی بلال عطّاری : نگرانِ شوریٰ بننے سے پہلے بھی پنجاب کے کئی شہروں میں حاجی مشتاق عطّاری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی آمد کا سلسلہ ہوتا تھا ، ایسے کئی مواقع پر ان کی زیارت اور نعت و بیان سننے کا موقع ملا ، ایک بار ان کے ساتھ سفر بھی کیا۔ کراچی حاضری کے موقع پر اگر فیضانِ مدینہ میں ان کی زیارت نہ ہوتی تو ہم کنزُالایمان مسجد جاکر ان سے ملتے تھے۔

مہروزعطّاری : ان میں ایسی کیا کشش (Attraction) تھی کہ آپ ان سے ملاقات کے لئے کھِچے چلے جاتے تھے؟

حاجی بلال عطّاری : ان کی زیادہ شہرت تو نعت خوانی کے حوالے سے تھی ، اس کے علاوہ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی ، بہت ملنسار تھے اور کسی کو بلانے کا انداز بھی بہت پیارا تھا۔

مہروزعطّاری : مرکزی مجلسِ شوریٰ میں آپ کے سب سے زیادہ قریب کون ہے؟

حاجی بلال عطّاری : عام طور پر انسان جسمانی طور پر (Physically) جن سے قریب ہوتا ہے ، ذہنی ہم آہنگی بھی ان سے ہی زیادہ ہوتی ہے۔ میں اور حاجی وقارُ المدینہ ، ہم دونوں ایک ہی کلاس اور محلّے میں ہوتے تھے ، دینی کاموں کا آغاز بھی اکٹھے ہی کیا اور پھر کافی عرصے ایک ساتھ دینی کاموں کی سعادت ملتی رہی۔ آج کل تنظیمی اعتبار سے راولپنڈی اسلام آباد والا ریجن ان کے پاس ہے اور میری رہائش بھی راولپنڈی میں ہے نیز وہ میرے بچّوں کے ماموں بھی ہیں ، اس اعتبار سے ان کے ساتھ زیادہ قربت ہے۔ تنظیمی تربیت کے اعتبار سے حاجی شاہد عطّاری صاحب کے مجھ پر بہت احسانات ہیں اور آج میں جس مقام پر ہوں اس میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

مہروز عطّاری : نگرانِ پاکستان انتظامی کابینہ حاجی شاہد عطّاری صاحب کے ساتھ میں نے آپ کا عقیدت بھرا انداز دیکھا ہے ، اس کی کچھ وضاحت فرما دیں۔

حاجی بلال عطّاری : آج ہم بالخُصوص پنجاب میں دینی کاموں کی جو بہاریں دیکھ رہے ہیں اور جو ذمّہ داران بڑی بڑی ذمّہ داریوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں ، ان میں ایک بڑی تعداد وہ ہے جو حاجی شاہد صاحب کے تربیت یافتہ ہیں۔ حاجی وقارُ المدینہ ، قاری سلیم ، حاجی یعفور ، حاجی اسلم سمیت کئی اراکینِ شوریٰ بھی حاجی شاہد صاحب کے تیار کردہ ہیں۔ گزشتہ دنوں گفتگو کے دوران حاجی اسلم صاحب نے ذکر کیا کہ جب یہ پہلی مرتبہ سن 2001ء کے لگ بھگ ایک مدنی مشورے میں حاجی شاہد صاحب کے سامنے آئے تو انہوں نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی ، حاجی شاہد صاحب نے انہیں ذمّہ داری دی اور بعد میں تربیت بھی فرماتے رہے ، آج یہ رکنِ شوریٰ ہیں۔ حاجی شاہد عطّاری صاحب پر امیرِ اہلِ سنّت کا خاص فیضان ہے اور انہوں نے دعوتِ اسلامی کے لئے بہت زیادہ وقت دیا ہے۔ ایک وقت میں ان کا فزیکل جدول ایسا ہوتا تھا جسے “ جِنّاتی جدول “ کہا جاسکتا ہے ، انسان کو یقین نہیں آتا کہ کوئی کسی کام کے لئے اتنا زیادہ وقت کیسے دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی طبیعت میں نرمی ، صبر و تحمّل ، غلطیوں سے درگزر اور ماتحتوں کو آگے بڑھانے کےا وصاف نمایاں ہیں۔ فیضانِ امیرِ اہلِ سنّت سے جیسی تنظیمی تربیت حاجی شاہد فرماتے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا ایسی تربیت کرتا ہو۔

مہروز عطّاری : کن کن ممالک کا سفر فرماچکے ہیں؟

حاجی بلال عطّاری : دینی کاموں کے سلسلے میں اب تک نیپال ، تھائی لینڈ ، ملائیشیا ، سنگاپور ، میانمار (برما) ، خلیجی ممالک ، برازیل ، پانامہ (ویسٹ انڈیز) ، کیوبا ، کینیڈا ، امریکہ اور ترکی وغیرہ تقریباً 30 ممالک کا سفر ہوچکا ہے۔

مہروز عطّاری : اگر آپ کو اختیار دیا جائے تو کس ملک میں شفٹ ہونا چاہیں گے ؟

حاجی بلال عطّاری : اگر دینی کام کی ضرورت کو دیکھا جائے تو پھر کہیں بھی جانے کا ذہن بن سکتا ہے لیکن اگر اپنی سہولت دیکھیں ، اپنی فیملی کو یا اپنے بچّوں کے مستقبل کو دیکھیں تو پھر یہ ذہن بنتا ہے کہ پاکستان میں ہی رہنا چاہئے۔

مہروز عطّاری : لوگ تو کہتے ہیں کہ پاکستان میں ترقّی کے مواقع کم ہیں ، آپ کی سوچ اس سے مختلف کیوں ہے؟

حاجی بلال عطّاری : ہر ایک کی سوچ کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک میں جائیں جن کے بارے میں گمان ہے کہ یہاں ہم اپنے عقائد و اعمال کا تحفّظ کرسکیں گے تو ان ملکوں کا لائف اسٹائل پاکستان سے بھی کم درجے کا ہے ، مثلاً افریقی ممالک۔ اور اگر ترقی یافتہ یورپی ممالک میں جائیں تو وہاں اپنے اور بچّوں کے ایمان کی حفاظت ، شرم و حیا ، آخرت کا تحفّظ اور اَخلاق و کردار کو سنوارنا بہت مشکل ہے۔

مہروز عطّاری : نیپال میں آپ نے کافی وقت گزارا ہے ، اس سے متعلق کچھ بتائیں۔

حاجی بلال عطّاری : دینی کاموں کے سلسلے میں 12 ماہ کے لئے نیپال کا سفر ہوا تھا جس میں سے چند مہینے فیملی بھی ساتھ تھی۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے نیپال کوئی بڑا ملک نہیں ہے۔ پہلی مرتبہ ایک اجتماع کے انتظامات کے سلسلے میں نیپال جانا ہوا تھا جس میں نگرانِ شوریٰ کی تشریف آوری ہونی تھی۔ اجتماع کے بعد جب پاکستان واپسی ہوئی تو مرکزی مجلسِ شوریٰ کے مشورے میں نگرانِ شوریٰ نے مجھے فرمایا کہ آپ پاکستان میں اپنی تمام ذمّہ داریوں کو سمیٹ لیں ، اب آپ نے بیرونِ ملک دینی کاموں پر توجّہ دینی ہے۔

مہروز عطّاری : آپ نے اتنے سارے ملکوں کا سفر کیا ، ہر ملک کے لوگوں کا رہن سہن ، سوچ اور رویے مختلف ہوتے ہیں ، اس کے باوجود ہر جگہ معاملات کو کیسے مینیج کیا؟

حاجی بلال عطّاری : یہ سب کچھ امیر اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کے فیضان سے ہے ، اس میں کوئی ذاتی کمال نہیں ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ دنیا بھر میں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کا انداز اور طریقۂ کار یکساں ہے ، امیرِ اہلِ سنّت اور مرکزی مجلسِ شوریٰ کی آواز پر تمام اسلامی بھائی لَبَّیْک کہتے ہیں۔ اس لئے کوئی ایسا غیر معمولی معاملہ نہیں ہوتا جسے کنٹرول کرنا ہوتا ہے ، مدنی مرکز جسے بھی بھیجتا ہے اسلامی بھائی اس کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اگرچہ مختلف ملکوں کے اسلامی بھائیوں کی زبان ، انداز ، رویّہ مختلف ہوتا ہے لیکن دینِ اسلام اور دعوتِ اسلامی سے تعلق کی بدولت کسی ملک میں بہت زیادہ اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔

مہروز عطّاری : انڈیا میں بھی دینی کاموں سے متعلق آپ کی کافی خدمات رہی ہیں ، اس بارے میں اپنی کچھ یادیں ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین سے شیئر کردیں۔

حاجی بلال عطّاری : انڈیا میں دعوتِ اسلامی کے دینی کام وہیں کے اسلامی بھائی کرتے ہیں۔ میرے سفرِنیپال کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انڈیا میں دعوتِ اسلامی کے تحت ویلفیئر کی خدمات کو عام کیا جائے اور دینی کاموں سے متعلق ذمّہ داران کو اپ گریڈ کیا جائے۔ میں نے مجموعی طور پر انڈیا کے مسلمانوں بالخُصوص دعوتِ اسلامی کے ذمّہ داران میں دین سے مَحبّت اور دینی کاموں کا جذبہ دیگر قوموں سے زیادہ پایا ہے ، وہاں تھوڑی کوشش سے رزلٹ زیادہ ملتا ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ میں نے انڈیا کے اسلامی بھائیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور بالخُصوص اِطاعت سیکھی ہے۔

مہروز عطّاری : مرکزی مجلسِ شوریٰ کی طرف سے مدرسۃُ المدینہ بالغان کی ذمّہ داری آپ کے پاس ہے ، اس شعبے میں آپ نے کیا تبدیلیاں کیں اور آگے کیا ارادے ہیں؟

حاجی بلال عطّاری : اس وقت یعنی ستمبر 2021ء میں 1لاکھ 60 ہزار سے زیادہ اسلامی بھائی مدرسۃُ المدینہ بالغان میں پڑھ رہے ہیں۔ اب ہم مدرسۃُ المدینہ بالغان کاباقاعدہ نصاب لانے کی تیاری کررہے ہیں جس کے لئے امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  نے بہت پیارا نام عطا فرمایا ہے : “ قراٰن سیکھئے “ اس نصاب کے 3 حصّے ہیں جن میں سے پہلا حصہ اِن شآءَ اللہ بہت جَلد منظرِ عام پر آئے گا۔ اس نصاب کی مدد سے طلبہ کو دُرست قراٰن کے علاوہ دیگر فرض عُلوم سکھانے میں بھی مدد ملے گی۔

مہروز عطّاری : آپ کی مینجمنٹ بہت مشہور ہے اور سنا ہے کہ آپ بہت اچّھے مُنْتَظِم (Manager) ہیں۔ یہ سب آپ نے کہاں سے سیکھا ہے؟

حاجی بلال عطّاری : یہ سوال ان کرم فرماؤں سے ہی کرنا چاہئے جو ایسا کہتے ہیں ورنہ میں اپنے اندر انتظامی حوالے سے غیر معمولی صلاحیتیں نہیں پاتا ، نہ ہی میں نے MBA یا پھر مینجمنٹ سے متعلق کوئی کورس کیا ہے۔ اگر اس حوالے سے مجھ میں کوئی خوبی ہے تو اس میں فیضانِ امیرِ اہلِ سنّت کے علاوہ والد صاحب کی تربیت اور گھر کے ماحول کا کافی عمل دخل ہے۔

مہروز عطّاری : بعض لوگ دعوتِ اسلامی کے طریقۂ کار اور بعض فیصلوں پر کافی تنقید کرتے ہیں ، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

حاجی بلال عطّاری : تنقید کرنے والوں کی عموماً3 قسمیں ہوتی ہیں : (1)وہ لوگ جو کسی فیصلے سے متأثّر ہوئے ہیں۔ ہمارا فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے اس لئے معلومات کرنے کی کوشش ہوتی ہے ، اگر ہمارا فیصلہ غلط ہو تو ان سے معذرت کرلی جاتی ہے (2)جو ہم سے دور ہیں اور غلط فہمی کا شکا رہیں ، ان سے متعلق کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی غلط فہمی دور ہوجائے (3)جو تنقید برائے تنقید کرتے ہیں۔ اس بارے میں امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  نے یہ مدنی پھول عنایت فرمایا ہے کہ : ہر مُخالَفت کا جواب ، دینی کام۔

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ، آئے روز طرح طرح کی باتیں آتی ہیں جن میں تنقید برائے تنقید کے علاوہ ذاتی حملے بھی شامل ہوتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنا زیادہ کام ہے اور آگے مزید اتنا بڑا کام کرنا ہے کہ اس طرف دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی۔

مہروز عطّاری : ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین کو آپ کیا پیغام دیں گے؟

حاجی بلال عطّاری : آج کے دور میں آپ چاہے پاکستان میں ہوں یا بیرونِ پاکستان ، ایمان کے تحفّظ ، اَخلاق و کردار سنوارنے اور شرم و حیا بچانے کے لئے دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول ایک محفوظ پناہ گاہ (Shelter) ہے۔ تمام اسلامی بھائیوں اور بہنوں سے میری مدنی اِلتجا ہے کہ خود بھی اور اپنے بال بچّوں کو بھی اس دینی ماحول سے وابستہ رکھیں۔ اللہ کریم ہمیں مرتے دَم تک اس نیک ماحول سے وابستگی عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share

Articles

Comments


Security Code