سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

عطائیں میرے حضور کی (قسط : 13)

* مولانا ابو الحسن عطاری مدنی

ماہنامہ فروری2022

گزشتہ ماہ کے مضمون میں آپ نے پڑھا کہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے قاسمِ نعمت اور صاحبِ جُود و سخاوت ہونے کے موضوع کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے جن میں سے دو حصے “ (1)حُضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  خزائنِ الٰہیہ کے مالک اور مختارِ کل ہیں (2)سائل کو منع نہ فرمانا “ مختصر طور پر پیش کئے گئے۔ بقیہ دو حصے “ (3)بے حساب عطائیں فرمانا (4)اپنے پاس جمع نہ رکھنا “ کا مختصر تذکرہ ملاحظہ کیجئے :

(3)بے حساب عطائیں فرمانا :

حُضور نبی رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شانِ جود و سخاوت کا بیان اتنا وسیع و کثیر ہے کہ اس پر سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ اور بےلوث و بے لالچ عطا فرمانے والی ذات صرف رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ذات ہے۔

حضرت عبدُا بن عباس  رضی اللہُ عنہما  آپ کی شانِ سَخاوت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی ہیں اورسَخاوت کا دریا سب سے زِیادہ اس وَقْت جوش پر ہوتا ، جب رَمَضان میں آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے جبریلِ ا مین  علیہِ الصّلوٰۃُ وَالسَّلام  مُلاقات کے لئے حاضِر ہوتے ، جبریلِ امین  علیہِ الصّلوٰۃُ وَالسَّلام  (رَمَضانُ المبارَک کی) ہر رات میں حاضِر ہوتے اور رسولِ کریم ، رء ُوفٌ رَّحیم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ان کے ساتھ قراٰنِ عظیم کا دَورفرماتے۔ پس رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔ [1]

آپ کی بے حساب عطاؤں کا اظہار کبھی یوں بھی ہوتا کہ غیر مسلم کو بھی سوال پر بے حساب نواز دیتے چنانچہ

حضرت صَفوان بن اُمَیّہ  رضی اللہُ عنہ  نے(اسلام لانے سے پہلے غزوۂ حُنین کے موقع پر)بکریوں کا سُوال کیا ، جن سے دوپہاڑ وں کا درمیانی جنگل بھراہوا تھا ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے وہ سب ان کو دے دِیں۔ اُنہوں نے اپنی قوم میں جا کر کہا : اے میری قوم! تم اسلام لے آؤ! اللہ پاک کی قسم! محمد( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) ایسی سخاوت فرماتے ہیں کہ فَقْر (مُحتاجی) کا خوف نہیں رہتا۔ [2]

مزید فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  حُنین کے دن مجھے مال عطا فرمانے لگے ، حالانکہ آپ میری نظر میں مَبْغُوض ترین تھے ، پس آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مجھے عطا فرماتے رہے ، یہاں تک کہ میری نظر میں محبوب ترین ہوگئے۔ [3]

غزوۂ حُنین میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس قدر کثرت سے سَخاوت فرمائی جس کا اَندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے  بہت سوں کو 100 ، 100اُونٹ عطا فرمائے۔ [4]

حضور سیّدی اعلیٰ حضرت یومِ حنین کی سخاوت کے بارے میں فرماتے ہیں : حضور اقدس  صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم  کی ایک اُس دن کی عطا سخی بادشاہوں کی عمر بھر کی داد و دِہش (یعنی سخاوت و بخشش) سے زائد تھی ، جنگل غنائم (یعنی بکریوں وغیرہ) سے بھرے ہوئے ہیں اور  حضور  عطا فرما رہے ہیں اور مانگنے والے ہجوم کرتے چلے آتے ہیں اور حضور پیچھے ہٹتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب سب اَموال تقسیم ہولئے ایک اَعرابی (یعنی عرب کے دیہات میں رہنے والے) نے رِدائے مبارک (یعنی چادر مبارک) بدنِ اقدس پر سے کھینچ لی کہ شانہ و پشتِ مبارک پر اس کا نشان بن گیا ، اس پر اِتنا فرمایا : اے لوگو! جلدی نہ کرو ، وَاللہ کہ تم مجھ کو کسی وقت بخیل نہ پاؤ گے۔ [5]

کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ اپنے بدنِ مبارک پر پہنا ہوا کپڑا بھی عطا فرمادیا جیسا کہ   حضرت سہل بن سعد  رضی اللہُ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت ایک چادر لے کر آئی ، اس نے عرض کیا : یَارسولَ اللہ! یہ میں نے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے ، میں آپ کے پہننے کے لئے لائی ہوں۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ضرورت تھی ، اس لئے آپ نے وہ چادر لے لی ، پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہماری طرف نکلے اوراسی چادر کو بطورِ تہبند باند ھے ہو ئے تھے۔ ایک صحابی  رضی اللہُ عنہ  نے دیکھ کرعرض کی : کیا اچھی چادر ہے یہ مجھے پہنا دیجئے۔ آپ نے فرمایا : ہاں! کچھ دیر کے بعد آپ مجلس سے اُٹھ گئے ، پھر واپس تشریف لائے اوروہ چادر لپیٹ کر اس صحابی کے پاس بھیج دی۔ صحابۂ کرام  رضی اللہُ عنہم  نے اس سے کہا کہ تم نے اچھا نہیں  کیا ، حالانکہ تمہیں  معلوم ہے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کسی سائل کا سوال رد نہیں فرماتے۔ وہ  صحابی  رضی اللہُ عنہ  کہنے لگے : اللہ کی قسم! میں نے صرف اس لئے سوال کیا کہ جس دن میں مر جاؤں یہ چادر (بطورِ تَبرُّک)میرا کفن بنے۔ حضرت سہل  بن سعد  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں کہ وہ چادر اس کا کفن ہی بنی۔ [6]

عطائے سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعض نظارے ایسے بھی تھے کہ کسی سے اُس کی چیز خرید کر اُسی کو یا اس کے گھرانے کے کسی دوسرے فرد کوعطا فرمادیتےجیساکہ غزوۂ “ ذَاتُ الرِّقَاع “ سے واپسی کا سفر جاری تھا ، حضرت جابر بن عبدُاللہ  رضی اللہُ عنہ  کا اونٹ کافی لاغر اور کمزور تھا ، بار بار لشکر سے پیچھے رہ جاتا ، رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اونٹ کی یہ حالت دیکھی تو اسے ایک لکڑی ماری ، وہ اونٹ اس قدر تیز رفتار ہوگیا کہ اب دوسرے صحابۂ کرام کی اچھی اچھی سانڈنیوں سے بھی آگے نکل جاتا تھا ، حضرت جابر اونٹ کی رفتار کم کرتے ہوئے حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے برابر میں حاضر ہوئے اور حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے باتیں کرتے کرتے چلنے لگے ، نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : اے جابر! تم یہ اونٹ مجھے بیچتے ہو؟ حضرت جابر  رضی اللہُ عنہ  نے بلامعاوضہ تحفۃً پیش کرنا چاہا لیکن سرکارِ دوعالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے قیمتاً خریدا اور ایک اوقیہ سونا قیمت ٹھہری۔ مدینہ شریف پہنچنے کے بعد اگلے دن حضرت جابر اونٹ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لئے لائے اور مسجد نبوی شریف کے باہر باندھ دیا ، رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دیکھا تو فرمایا کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ بتایا گیا کہ حضرت جابر کا ہے ، رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ کو بلایا اور فرمایا : اے میرے بھائی کے بیٹے اونٹ کو لے جاؤ یہ تیرا ہی ہے اور پھر حضرت بلال  رضی اللہُ عنہ  سے فرمایا : جابر کو لیجاکر اسے ایک اوقیہ دے دو ، حضرت بلال نے اُنہیں اونٹ کی قیمت میں ایک اوقیہ اور کچھ زیادہ مال دے دیا۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! وہ جب تک میرے پاس رہا میرا مال بڑھتاہی رہا۔ [7]

اسی طرح ايك موقع پر امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عُمر فاروق  رضی اللہُ عنہ  سے ایک اونٹ  خریدا اور انہیں کے لختِ جگر حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن عمر  رضی اللہُ عنہما  کو ہبہ فرما دیا۔ [8]

واہ کیا جُود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا

نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

دَھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا

تارے کِھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا

اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا

اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا

بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



[1] بخاری ، 1 / 9 ، حدیث : 6

[2] مسلم ، ص973 ، حدیث : 6021 ، شرح الشفاء للقاری ، 1 / 257

[3] ترمذی ، 2 / 147 ، حدیث : 666

[4] بخاری ، 3 / 118 ، حدیث : 4336

[5] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص122 ، بخاری ، 2 / 260 ، حدیث : 2821 ملخصاً

[6] بخاری ، 4 / 54 ، حدیث : 5810ملخصاً

[7] سیرتِ ابن ہشام ، ص384 ملخصاً

[8] بخاری ، 2 / 23 ، حدیث2115۔


Share

Articles

Comments


Security Code