اسلام کی روشن تعلیمات

دِلوں پر حکمرانی کا نسخہ

* مولاناسید سمر الہدیٰ عطّاری

ماہنامہ فروری2022

ایک سید زادے نے علمِ دین کےحصول کے لئے ملکِ یمن کے سفر کا ارادہ کیا۔ مقصدِ سفرمیں کامیابی کے لئے اساتذہ اور بُزرگوں سے دعاؤں اور نصیحتوں کے لئے عرض گزاری بھی کی ، اس موقع پر انہوں نےشفقتوں اور دعاؤں سےنوازا اور طلبِ علم میں اخلاصِ نیت ، محنت کے ساتھ باادب اور باعمل بنے رہنے کی نصیحت فرمائی ، ایک استاد صاحب نے بڑی منفرد نصیحت فرمائی جو سیّد صاحب کے دل پر نقش ہوگئی ، وہ اگرچہ بہت مختصر الفاظ تھے لیکن جامعیت ایسی کہ دنیا و آخرت کی کامیابی کا اکسیر ، وہ الفاظ تھے “ زَبانِ شِیرِیں مُلْک گِیری “ ۔

سید صاحب نےجب اس نصیحت پر عمل کیا تو واقعی اسے دلوں پر حکمرانی کااکسیر پایا ، یہ شیریں گفتاری اور اچھےاخلاق کی تاثیر تھی کہ وہاں مشائخ عظام اور طلبۂ کرام نےانہیں محبتوں سے نوازا اور دوسال کے بعد جب وطن واپسی کا ارادہ کیا تو ان کے کئی پاکستانی ، ہندی ، یمنی ، صومالی ، انڈونیشی ، تنزانی دوستوں نے اشکبار آنکھوں سے رخصت کیا۔ وطن پہنچنے کے بعدیہاں بھی اپنے دوست احباب اور بالخصوص گھر والوں میں اس کے فوائد سے مُستفید ہورہے ہیں۔

اسلام نےحُسنِ اخلاق اور میٹھی زبان کے استعمال کو بہت اہمیت دی ہے ، یوں کہہ لیجئے کہ زبان کی اصلاح و درستی اسلام کی روشن تعلیمات کا اہم حصّہ ہے۔ پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : قیامت کے دن بندۂ مؤمن کے میزانِ عمل میں حسنِ اخلاق سے وزنی کوئی عمل نہ ہوگا۔ [1] ایک اور موقع پر فرمایا : بہترین مسلمان وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ [2]

یاد رکھئے! حُسنِ اخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے اس میں شرم وحیا ، صدق وسچائی ، عَفْو و دَرگُزر ، تَحَمُّل و برداشت ، عاجزی و اِنکساری ، عدل و انصاف ، امانت داری وغیرہ شامل ہیں لیکن ان تمام اوصاف میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل مہذب ، میٹھی اورنرم گفتگو ہےکیوں کہ حسن اخلاق کے اکثر اجزا کا ظہور زبان سے ہی ہوتا ہےیعنی زبان درست ہوگی تو سچ بولے گا ، عَفو و درگزر کرے گا ، معاملات میں عدل و انصاف کرے گا اور رازوں کی پاسداری بھی کرے گا ، غرض کہ زبان درست ہوجائے تو انسان اخلاقی بلندیوں کو چُھوجاتا ہے اور اگر اعتدال سے ہٹ جائےتو اخلاقی پستی انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اصلاحِ زبان کی اہمیت کا اندازہ اللہ پاک کے اسلوبِ کلام سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایمان والوں کو ڈرنے کا حکم دیاتو ساتھ ہی زبان کی اصلاح کا حکم بھی صادر فرمایا ، چنانچہ ارشاد ہوا : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) )ترجمۂ کنزُ الایمان : اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو[3]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   اللہ پاک نےاس آیت مبارکہ میں گویا اس سوال کا جواب عطافر مایا کہ “ کہنا کیاہے؟ “ جب کہ ایک آیت میں یہ بھی بیان فرمادیا کہ “ کہناکیسے ہے؟ “ چنانچہ اللہ ربُّ العزّت کا فرمان  ہے : ( وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا )ترجمۂ کنزُ الایمان : اور لوگوں سے اچّھی بات کہو۔ [4]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  یہ دونوں آیات ہمیں سکھارہی ہیں کہ زبان سے ادا ہونے والے الفاظ جھوٹ اور نفاق وغیرہ کی وجہ سے ڈگمگا نہ رہے ہوں اور سیدھی بات کو پیش کرنے میں “ حُسن اورخوب صورتی “  کا خیال بھی لازمی رکھا جائے۔

اچھی گفتگو کےاثرات

اچھی گفتگو کے فوائد و مثبت اثرات بہت زیادہ ہیں ، یہ ظاہری شخصیت اور جسمانی اعضاء پر اثر انداز ہوتی ہے جیسا کہ حضرت یونُس بن عبید  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : جس شخص کی زبان درستی پر قائم رہتی ہےتم اس كا اثراس كے ہر عمل میں دیکھو گے۔ [5]

 اچھی گفتگو کے چند اثرات ملاحظہ کیجئے :

(1)اچھی گفتگو کا ایمان سے بڑا گہرا تعلق ہے کیوں کہ بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا دل ٹھیک نہ ہو جائے اور اس کا دل اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی زبان دُرست نہ ہو جائے۔ [6]

(2)اچھے کلمات ایمان کا تقاضا بھی ہیں ، رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔ [7]

(3)اچھی گفتگو دِلوں کو جوڑنے ، لوگوں کی اصلاح کرنے ، غم و غصہ کو دور کرنےاور سعادت مندی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔

(4)پاکیزہ گفتگو شیطان کے خلاف بہترین مددگار ہے ، اگراہلِ ایمان دورانِ گفتگو شائستہ کلام کا اہتمام نہ کریں تو شیطان ان کے درمیان دشمنی اور بغض و حَسد پیدا کردے گا۔

جیسے اچھی گفتگو کے فوائدہیں ایسے ہی فضول و بری گفتگو کے منفی اثرات و آفات بھی ہیں ، اسی حقیقت کو رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےیوں بیان فرمایا : آدمی جب صبح کرتا ہے تو اس کےتمام اعضاء ، زبان سے کہتے ہیں : ہمارے بارے میں اللہ   پاک سے ڈرتے رہناکیوں کہ اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی درست رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔ [8]

حضرت مالک بن دینار  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں کہ جب تم اپنے دل میں سختی ، بدن میں کمزوری اور رزق میں تنگی دیکھو تو جان لو کہ تم نے ضرورکوئی فضول بات منہ سے نکالی ہے۔ [9]

لہٰذا جو لوگ جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، فحش گوئی اور چاپلوسی سے اپنی زبانیں آلودہ نہیں کرتے اور ہمیشہ حق و سچ بات مُہذّب اور میٹھے انداز میں کرتے ہیں تو ان کی شخصیت نکھر جاتی ہے ، دل کی سختی اور رزق کی تنگی جیسی آفات سے بچالئے جاتے ہیں پھر مزید اللہ پاک کا یہ انعام بھی ہوتا ہے : ( یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) ) ترجَمۂ کنزُ الایمان : تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔ [10]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ پاک ہم سب کو ہمیشہ بامقصد و شائستہ گفتگو کرکے زبان شیریں ملک گیری کا عملی نمونہ بنائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ فیضان حدیث ، المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر)کراچی



[1] الادب المفرد ، ص91 ، حدیث : 273

[2] الترغیب والترہیب ، 3 / 275 ، حدیث : 27

[3] پ22 ، الاحزاب : 70

[4] پ1 ، البقرۃ : 83

[5] احیاءالعلوم ، 3 / 137

[6] موسوعۃ ابن ابی الدنیا ، 7 / 31 ، رقم : 9

[7] بخاری ، 4 / 105 ، حدیث : 6019

[8] ترمذی ، 4 / 183 ، حدیث : 2415

[9] منہاج العابدین ، ص64 ، 65

[10] پ22 ، الاحزاب : 71


Share