اسلامی بہنوں کے شرعی مسائل

جہیز اور وراثت

* مفتی محمد ہاشم  خان عطاری مدنی

ماہنامہ فروری2022

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ والد کی وفات کے بعد بہنوں کی شادی کرتے ہیں۔ شادی اور جہیز کے مصارف مشترکہ متروکہ مال سے کرتے ہیں۔ جب وراثت تقسیم کرنے کی بات ہوتی ہے تو بہنوں کو یہ کہہ کر حصہ نہیں دیتے کہ “ ہم نے ان کے وراثتی حصے کے عوض ان کی شادی کروادی تھی اور جہیز بنا دیا تھا۔ لہٰذا انہیں وراثتی جائیداد میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ “ حالانکہ شادی و جہیز کے اخراجات کرتے وقت کوئی ایسی بات نہیں کی جاتی کہ یہ مصارف دلہن کے وراثتی حصہ کے عوض ہیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ (1)کیا ان کی یہ بات شرعی طور پر درست ہے؟ (2)اگر اس صورت میں بہنوں کو حصہ دینا ضروری ہے تو جو زبردستی کسی عورت کے حصے کی وراثتی جائیداد اسے نہ دے تو اس کی کیا سزاہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1)ان لوگوں کی یہ بات کہ “ ہم نے ان کے وراثتی حصے کے عوض ان کی شادی کروادی تھی اور جہیز بنا دیا تھا۔ لہٰذا انہیں وراثتی جائیداد میں سے حصہ نہیں ملے گاشرعاً ہر گز درست نہیں ، بلکہ مُورث (یعنی جس کی وراثت تقسیم ہو ، اس) کے انتقال کے بعد اگر اس کی بیٹیاں ہوں تو انہیں وراثت سے حصہ لازمی ملے گا۔ ان کی شادی کے مصارف اورجہیزپران کے بھائیوں نے جورقم صرف کی وہ ان کے حصے سے منہانہیں کی جائے گی اور نہ ہی اس کےسبب ان کا حصہ کم یا بالکل ختم ہوگاکیونکہ جہیز یا کسی دوسری صورت میں بلامعاہدہ جو کچھ بھائی اخراجات کرتے ہیں وہ ان کی طرف سے احسان اور ہبہ(گفٹ) ہوتا ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ بھائی اخراجات اگرچہ مالِ مشترکہ متروکہ سے کرتے ہیں مگر شادی اور جہیز کے اخراجات کرتے وقت نہ اس قسم کی گفتگو ہوتی ہے کہ یہ جہیز تمہارے فلاں حصے کے عوض دیتے ہیں اور اس کے بعد سارے ترکے میں یا ترکے کی فلاں قسم میں تمہارا حصہ نہیں ہوگا ، نہ ہی یوں ہوتا ہے کہ تمام قسم کے متروکہ مال سے بہن کا حصہ نکال کر وہی اس کے جہیز اور شادی کے مصارف میں خرچ کیا گیا ہو۔ اسی طرح یہ صورت صلح و تخارج بھی نہیں ہے۔ کیونکہ کل ترکہ یا اس کی کسی قسم سے بہن کا حصہ ساقط نہیں کیا جاتا اور نہ بہن کے خیال میں ہوتا ہے کہ اب فلاں قسم کے ترکے میں میرا کوئی دعوی ٰنہیں رہا۔ لہٰذا یہ اخراجات بہنوں کے حصوں سے منہا نہیں کیے جائیں گے۔ یہ اخراجات بھائیوں کی طرف سے تبرع و احسان ہوں گے۔

(2)یہ بات اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں تھی کہ عورتوں کو وراثت سے حصہ نہ دیتے تھےمگر اسلام نے عورت کی تکریم فرمائی اور مَردوں کی طرح اسے بھی حسبِ حیثیت وراثت میں حقدار قرار دیا۔ اب اگر کوئی حیلے بہانے سے کسی عورت کو اس کے حصہ وراثت سے روکتا ہے تو وہ سخت ظالم و غاصب ہے۔

اگر کوئی کسی وارث بننے والی عورت کو زبردستی اس کے حق سے محروم کر کے اس کے حصے کی وراثتی جائیداد دبا لے گا تو اسے یہ سخت عذاب دیا جائے گا کہ قیامت کے دن وہ زمین ساتوں تہوں تک طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالی جائے گی ، اور وہ ساتوں تہوں تک دھنسا دیا جائے گا ، اسے اتنی زمین ساتوں تہوں تک کھودنے اور محشر تک ڈھونے کی تکلیف دی جائے گی اور اس کا کوئی عمل قبول نہ ہو گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شیخ الحدیث دار الافتاء اہل سنت لاہور


Share