Book Name:Tauba karnay walon kay liay inamaat
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھاآپ نے کہ توبہ کرنے والا کس قدر خُوش نَصیب ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایسے شخص کو بہت پسند فرماتا ہے، جوسچی توبہ کرتے ہیں اور انہیں اِنْعامات واِکرامات سے بھی نوازتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ توبہ کرنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا اِس قَدر مُقرَّب اور پسندیدہ بندہ بن جاتا ہے کہ اس کی دُعائیں بھی قَبول ہونے لگتی ہیں ،مگر افسوس! اس قدر اِنْعامات واکرامات کے باوُجُودہم اپنے رَبّ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانیوں میں مشغول ہیں اورتوبہ میں ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں۔زِندگی کو غنیمت جانتے ہوئے جلد اَزْجلد سچی توبہ کر لینی چاہئے ۔ ہمارے بُزرگانِ دِین کا یہ عالَم تھا کہ جب انہیں کوئی نصیحت کی بات بتاتا اور توبہ کی ترغیب دِلاتا تو ان پر خوفِ خدا طاری ہوجاتا اور پھر یہ نیک حضرات ایسی پکی توبہ فرماتے کہ مرتے دَم تک اسی پر قائم رہتے۔چُنانچہ
شیخِ طریقت،امِیْرِ اَہلسُنَّتدَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی کتاب نیکی کی دعوت میں نقل فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُناعُتبَۃُ الغُلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نوجوان تھے اور(توبہ سے پہلے)فِسق و فُجور اور شراب نوشی میں مشہور تھے۔ایک دن حضرتِ سیِّدُناحسن بصریرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی مجلس میں آئے۔حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اِس آیتِ مُبارَکہ کی تفسیر کررہے تھے: اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ۔تَرْجَمَۂ کنز الایمان:کیا ایمان والوں کوابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد(کے لئے)۔
آپ نے اِس قَدرمُؤَثِّر بیان فرمایا کہ لوگوں پرگِریہ(یعنی رونا)طاری ہو گیا۔ایک نوجوان کھڑا ہوا اور کہنے لگا:’’یا سَیِّدی !کیااللہ عَزَّ وَجَلَّمجھ جیسے فاسِق و فاجِر کی توبہ قَبول کرے گا،جب میں توبہ کروں؟‘‘شیخرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا:بے شک اللہ عَزَّ وَجَلّ تیری توبہ قبول کرے گا۔جبعُتبَۃُ الغُلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے یہ بات سُنی تو اُن کاچِہرہ زَرد پڑ گیا،سارا بدن کانپنے لگا،چِلّائے اور غش کھا کر