Book Name:Seerat-e-Data Ali Hajveri
داتا علی ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کاشوقِ علمِ دِین
حضرت خواجہ مَستان شاہ کابلی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : حضرت علی بن عثمان ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ محمود غزنوی کے قائم کردہ دِینی مدرسے میں اکثر دیکھے گئے ، اُس وَقْت آپ کی عمر بمشکل 12 ، 13 سال کی ہوگی ، حُصُولِ علمِ دِین کے جذبے سے سرشار یہ طالبِ علمِ دِین تعلیم میں اتنا مَحْو ہوتا کہ صبح سے شام ہوجاتی مگر کبھی پانی تک پیتے نہ دیکھا گیا ، رضوان نامی سفید رِیش بزرگ اُس مَدْرَسے کے مُدرّس تھے ، وہ اپنے اس خاموش طبع طالبِ علم کو تکریم کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔
ایک روزسلطان مَحُمود غَزنَوی کا گُزر اسی مَدْرَسے کی جانب سےہوا اور وہ اس عظیم دِینی درس گاہ میں آیا ، دیگر شاگردوں کے برعکس حضرت مخدوم علی ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اپنے کام میں اتنے مگن تھے کہ ان کو کوئی خبر نہ تھی ، بزرگ استاذ نے پکارا : دیکھو علی! کون آیا ہے؟ اب کیا تھا ایک طرف محمود غزنوی اور دوسری جانب ایک کمسن راہِ حق کا مُتَلاشی ، عجیب منظر تھا ، سلطان محمود غزنوی نے اس نوعمر طالب علمِ کی تَجَلِّیات کی تاب نہ لاتے ہوئے فَوراً نظریں جھکا دیں اور مُدَرِّس سے کہا : واللہ !یہ بچہ خدا کی طرف راغِب ہے ، ایسے طالبِ علمِ دِین اس مَدْرسے کی زِینت ہیں۔([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
سُبْحٰنَ اللہ!سنا آپ نے کہ حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ علمِ دِین سیکھنے اور مُطالعہ کرنے میں کس قدر مشغول رہا کرتے تھے کہ کم عُمری کے قیمتی لمحات کو بھی ضائع نہ ہونے دیا ، کیونکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ وقت اور علمِ دِین دونوں کی اہمیت سے ذرہ بھر بھی غافل نہ تھے ، اس قدر چھوٹی عمر میں بھی حُصولِ علمِ دِین اور مُطالعہ کرنے میں مسلسل مشغُول رہتے نیز زبان کا “ قُفلِ مدینہ “ یعنی زبان کوفضولیات سے بچانے پر بھی سختی سے کاربند تھے ، کتابوں سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی مَحَبَّت تو دیکھئے کہ