Book Name:Sadqa Ke Fazail o Adaab

ہے ، پیدا اس نے کیا ، ہمیں اس نے عطا فرمایا ، پھر ہم اسی کے حکم پر ، اسی کے مال کو ، اسی کی راہ میں خرچ کریں تو اللہ پاک اسے قرض فرماتا ہے اور اس پر بڑے اَجْر کا وعدہ بھی فرماتا ہے۔ جی ہاں ! قرآنِ کریم میں ہے :

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۴۵)   ( پارہ : 2 ، سورۂ بقرہ : 245 )

ترجمہ کَنْزُ الایمان : ہے کوئی جو اللہ  کو قرضِ حسن دے تو اللہ اس کے لیے بہت گُنا بڑھا دے اور اللہ تنگی اور کشائش کرتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پھر جانا۔

تفسیر صراطُ الجنان میں اس آیت کے تحت ہے : راہِ خدا میں اِخلاص کے ساتھ خرچ کرنے کو قرض سے تعبیر فرمایا ، یہ اللہ پاک  کا کمال درجے کا لطف و کرم ہے کیونکہ بندہ اُس کا بنایا ہوا اور بندے کا مال اُس کا عطا فرمایا ہوا ، حقیقی مالک وہ جبکہ بندہ اُس کی عطاسے مجازی ملک رکھتا ہے مگر قرض سے تعبیر فرمانے میں یہ بات دل میں بٹھانا مقصود ہے کہ جس طرح قرض دینے والا اطمینان رکھتا ہے کہ اس کا مال ضائع نہیں ہوتا اور وہ اس کی واپسی کا مستحق ہے ایسا ہی راہِ خدا میں خرچ کرنے والے کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ وہ اس خرچ کرنے کا بدلہ یقیناً پائے گا اوروہ بھی معمولی نہیں بلکہ کئی گنا بڑھا کر پائے گا ۔7 سو گنا بھی ہو سکتا ہے اور اس سے لاکھوں گنا زائد بھی ہو سکتا ہے۔صدقے سے دنیا میں بھی مال میں برکت ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اجر و ثواب ملتا ہے۔ دنیا کے اگر لاکھوں امیر لوگوں کاسروے کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان کی اکثریت صدقہ و خیرات بکثرت کرتی ہے اور لاکھوں غریبوں کو دیکھ لیں کہ ان کی اَکْثرِیَّت صدقہ و خیرات سے دور بھاگتی ہے۔ ( [1] )


 

 



[1]...تفسیر صراط الجنان ، پارہ : 2 ، سورۂ بقرہ ، زیرِ آیت : 245 ، جلد : 1 ، صفحہ : 367بتغیر قلیل۔