Book Name:Shoq e Hajj
ہیں۔ اب تو تعجب اور حیرانی کی انتہا نہ رہی ، حضرت شفیق بلخی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ حیرت میں ڈوب کر ٹکٹکی باندھ کر اُس خوش نصیب عاشقِ رسول کی طرف دیکھنے لگے۔اُس نے پوچھا : اے شفیق ! کیا دیکھتے ہو ؟ فرمایا : میں تمہاری کمزوری اورسفر کی درازی سے بہت حیران ہوں ، اُس خوش نصیب عاشقِ رسول نے بڑا پیارا جواب دیا ، کہنے لگا : اے شفیق بلخی ! سفر کی دوری کو میرا شوق قریب کردے گا اور جہاں تک بات ہے میری کمزوری کی تو میری کمزوری کا سہارا میرا مالک و مولا ہے۔ ( [1] )
سُبْحٰنَ اللہ ! اے عاشقانِ رسول ! آپ نے سناکہ اپاہج حاجی کا جذبہ کیسا زبردست ہے ، اپاہج ( یعنی چلنے سے معذور ) ہونے کے باوجود گِھسٹ گِھسٹ کر کعبہ شریف کی زیارت کے شوق میں چلا جا رہا ہے ، 10سال سے مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں تھا ، اس کے جذبے اور ہمت پر لاکھوں سلام ، صد ہزار آفرین اُس کے جذبہ اور شوق پر۔ اِس واقعہ میں ہمارے لئے بھی بڑی عبرت ہے ، وہ نادان مسلمان جو صحت مند اور تندرست ہونے کے باوجود ، مال ودولت ہونے کے باوجود ، استطاعت کے باوجود سفرِحج کی سعادت حاصل نہیں کرتا۔ اَپاہج حاجی گِھسٹ گِھسٹ کر جا رہا تھا ، اسے گھر سے نکلے 10 سال ہوگئے تھے ، اب بھی سفر میں تھا۔ اور نادان مسلمان صرف چند گھنٹوں کا سفر کرنے کے لیے بھی ہمت نہیں کرتا ، آہ ... ! افسوس ! کاش ! ہمیں شوقِ حج نصیب ہو ، کاش... ! ہمارے دل میں بھی محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول کی شمع یوں جلے کہ ہم سب کچھ چھوڑیں اور اللہ و رسول کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حج فرض ہو تو حج کے لیے جائیں ، اگر فرض نہ ہو اور اللہ نے نفل