Book Name:Shoq e Hajj
اے عاشقانِ رسول ! حج ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔اللہ پاک فرماتاہے :
وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ ( پارہ : 4 ، سورۂ آلِ عمران : 97 )
ترجَمہ کنزُ الایمان : اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے۔
پتہ چلا جو شخص کعبہ شریف تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے ، اس پر حج فرض ہے۔سرورِ عالم ، نورِ مُجَسَّم صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے استطاعت کی تفسیر زَادْ اور رَاحِلَہ سے کی ، راحِلہ کا مطلب : سواری ، زاد کا مطلب : سفر کا خرچ ۔علمائے کرام فرماتے ہیں : جس کے پاس اتنا مال ہے کہ گھر سے چل کر مکہ مکرمہ پہنچے ، وہاں قیام کے اخراجات ، وہاں سے واپسی کے اخراجات اور جتنے دن حج پر لگیں گے ان ایام کا گھر والوں کا خرچہ اس کے پاس موجود ہو ، راستہ بھی پر امن ( Peaceful ) ہو تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے۔ ( [1] ) اور یاد رکھئے ! حج فرض ہو جانے کے بعد فوراً حج کر لینا ضروری ہے ، یعنی اس میں ٹال مٹول کرنا کہ آئندہ سال چلا جاؤں گا ، بیٹیوں کی شادی کر لوں اس کے بعد حج کے لئےجاؤں گا ، ابھی کاروباری معاملات اٹکے ہوئے ہیں یہ پورے کر لوں پھر حج کے لئےجاؤں گا ، یہ انداز قطعاً درست نہیں ہے۔
علما فرماتے ہیں : اگر کسی شخص پر حج فرض ہو گیا ، لیکن وہ حج پر گیا نہیں ، ٹال مٹول کرتا رہا ، موخر کرتا رہا ، اس سال نہیں اگلے سال چلا جاؤں گا ، اُس سے اگلے سال چلا جاؤں گا ، ابھی بڑی زندگی پڑی ہے پھر چلا جاؤں گا ، یوں کرتا رہا پھر اس پر غربت آ گئی تو اب بھی