Book Name:Insan Aur Shaitan Mein Faraq

فرماتے ہیں: ان دونوں معاملات میں 5باتوں کا فرق ہے:([1]) (1):حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام  سے خطا ہوئی، آپ نے خطا  کا اِقْرار کر لیا، شیطان نے گُنَاہ کیا تو اس نے اپنا گُنَاہ مانا نہیں بلکہ اس پر حُجّت بازی کی، اپنے دلائل دئیے (2):دوسرا  فرق یہ ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام  نے اپنی خطا کا ذِمَّہ دار اپنے آپ کو ٹھہرایا، عرض کیا:  

ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ (پارہ:8، الاعراف:23)

ترجمہ کنزُ العِرفان: ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔

مگر شیطان نے اپنے گُنَاہ کی ذِمَّہ داری خُود نہ لی، اس بدبخت نے کہا:

قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ (پارہ:14، الحجر:39)

ترجمہ کنزُ العِرفان: اے ربّ میرے! مجھے اس بات کی قسم کہ تو نے مجھے گمراہ کیا۔

اللہُ اکبر! یہ خبیث کہہ رہا ہے: اے اللہ پاک! تُو نے مجھے بہکا دیا... (اَسْتَغْفِرُ اللہ!) حالانکہ تکبّر اس نے خُود کیا، حسد خُود کیا، سرکشی خُود کی، کرتُوت اپنے ٹھیک نہیں تھے مگر جرأت دیکھئے! اپنے گُنَاہ کی نسبت (معَاذَ اللہ!) اللہ پاک کی طرف کر رہا ہے (3):تیسرا فرق یہ کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام  شرمندہ ہوئے، روایات کے مطابق آپ نے شرم کی وجہ سے کئی سال تک آسمان کی طرف نگاہ نہ اُٹھائی جبکہ شیطان بدبخت تھا، اس نے شرمندہ ہونے کی بجائے اکڑ دِکھائی، شرمندہ تو کیا ہونا تھا، اُلٹا کہنے لگا:

لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَۙ(۱۶) (پارہ:8، الاعراف:16)

ترجمہ کنزُ العِرفان: میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر لوگوں کی تاک میں بیٹھوں گا۔


 

 



[1]...تنبیہ الغافلین، باب ما جاء فی الذنوب، صفحہ:208 خلاصۃً۔