Book Name:Surah e Zilzal

کچھ نہیں بَس ویسے ہی، ٹائِم پاس۔ یہ جو ”ویسے ہی (یعنی بےفائدہ) ہے ، یقین مانیے! یہ ایک مسلمان کی زبان پر جچتا ہی نہیں ہے، مسلمان قیامت پر یقین رکھتا ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ روزِ قیامت اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضِر ہونا ہے، ہم سے پوچھا جائے گا، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم کوئی کام بِلا سوچے سمجھے بَس ”ویسے ہی“کریں...؟

حضرت  شُرَیْح رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 2شخصوں کو فضول کام میں دیکھا، فرمایا: اَلْفَارِغُ مَااُمِرَ بِہَذٰا فارِغ شَخْص کو اس کام کا حکم نہیں دیا گیا، اللہ پاک کا فرمان ہے:

فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْۙ(۷) ٣٠،الشرح:٧)

ترجمہ کنز العرفان:تو جب تم فارِغ ہو تو خوب کوشش کرو۔

یعنی اپنے فارِغ وَقْت کو عِبَادت میں صَرف کر مطلب یہ کہ جب ایک عِبَادت سے فارِغ ہو، دوسری شروع کر اور کسی وَقْت عِبَادت سے خالی نہ رہ کہ عالَم کو پیدا کرنے سے اَصلی مقصود یہی ہے۔([1])

 کل کا انتظار مت کیجئے...!

ایک یہ بَلا بھی ہمارے ہاں عام ہے: کَل کر لوں گا۔ بہت سارے لوگ نفس و شیطان کے دھوکے میں آکر اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دیتے رہتے ہیں، مثلاً میں کل سے نیکیاں شروع کر لوں گا، اس جمعہ سے نیک بن جاؤں گا۔ رمضان المبارک سے نمازیں شروع کروں گا۔ کل تَوبہ کر لوں گا وغیرہ۔ یہ محض نفس و شیطان کی چال ہے۔ ذرا غور تو کیجئے!


 

 



[1]...انوارِ جمالِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، ص۳۲۳ بتغیر قلیل۔