Book Name:Surah e Zilzal

حضرت زید بن اَسْلَم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے، ایک مرتبہ ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوا، پیارے آقا، سید الانبیا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے  ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو فرمایا: اس (نئے آنے والے شخص) کو قرآنِ کریم سکھاؤ...! اُن صحابی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے اس شخص کو سورۂ زِلْزال سکھانا شروع کی،  جب انہوں نے سورۂ زِلْزال کی ساتویں آیت سکھائی تو اُس شخص نے کہا: بَس! مجھے کافی ہے۔ اُن صحابی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اس نے ابھی 7 آیات ہی سیکھی ہیں اور کہتا ہے: مجھے کافِی ہے۔ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: اسے چھوڑ دو! اسے فَقَاہَت (یعنی دِین کی سمجھ ) مِل گئی ہے۔([1])

اے عاشقانِ رسول! معلوم ہوا قرآنِ کریم کے یہ 35 الفاظ (یعنی مکمل سورۂ زِلْزال) اگر انہیں سمجھ کر ذِہن میں بٹھا لیا جائے اور بندہ اس کے مطابق زِندگی گزارے تو اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم!  ساری زِندگی کامیاب گزرے گی۔ 

سورۂ زلزال کا مرکزی مضمون

بنیادی طَور پر سورۂ زِلْزَال میں انسان کی ذِمَّہ داری   کا بیان ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ انسان اس دُنیا میں بےلگام نہیں ہے بلکہ یہ اپنی زِندگی کے ایک ایک منٹ کا خُود ذِمَّہ دار ہے، یہ اس دُنیا میں اچھائی کرے یا بُرائی کرے، اس کا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی محفوظ رکھا جائے گا، روزِ قیامت اسے بارگاہِ اِلٰہی میں حاضِر کر دیا جائے گا اور یہ اپنے ہر ہر عَمَل کا جواب دِہ ہو گا۔ غرض؛ انسان اس دُنیا میں جانوروں کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ اپنی زِندگی


 

 



[1]...تفسیر دُرِّ منثور، پارہ:30، سورۂ زلزال، جلد:8، صفحہ:596 ۔