Book Name:Apni Islah Kyun Zaroori Hai?

آہ! نامہ مِرا کُھل رہا ہے                                                                                                  یاخُدا!    تجھ    سے    میری    دُعا    ہے([1])

جنّت چا ہئے یا دوزخ؟

پیارے اسلامی بھائیو! یہ آج کے دَور کا بڑا مسئلہ ہے کہ آج ہمیں دوسروں پر تنقید ہی سے فُرصَت نہیں ملتی مگر ہمارے بزرگانِ دِین، اللہ پاک کے نیک بندے دوسروں پر تنقید کم اور خُود کی اِصْلاح پر زیادہ تَوَجُّہ دیا کرتے تھے۔  حضرت اِبراہیم تَیمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اللہ پاک کے نیک بندے تھے، ایک دِن آپ نےیہ تَصَوُّر باندھا کہ آپ گویا جہنّم میں ہیں، آگ کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، تُھوہر (یعنی زہریلا کانٹے دار درخت) کھا رہے ہیں، دوزخیوں کا پیپ پِی رہے ہیں، ان تَصَوُّرات کے بعد آپ نے اپنے آپ سے پوچھا: بتا! تجھے کیا چاہئے (جہنّم کا ایسا ہولناک عذاب یا اس سے نجات؟) اندر سے آواز آئی: نِجات چاہئے ۔ اس کے بعد آپ نے یہ خَیال جمایا کہ گویا آپ جنّت میں ہیں، وہاں کے پھل کھا رہے ہیں، جنّتی نہروں سے شربت پی رہے ہیں۔ ان تصوُّرات کے بعد آپ نے خُود سے پوچھا: اے نفس! تجھے کس چیز کی خواہش ہے؟ (جنّت کی یادوزخ کی؟) نفس نے کہا:مجھے جنّت کی خواہش ہے۔  اب آپ نے خُود کو سمجھاتے ہوئے فرمایا: اے نفس! فِی الحال تجھے مہلت ملی ہوئی ہے، (تو ابھی زندہ ہے، اب تجھے خُود ہی رستہ اِختیار کرنا ہے، تمہیں یہ آج ہی فیصلہ کرنا ہو گا کہ تجھے سُدھر کر جنّت میں جانا ہے یا بگڑ کردوزخ میں گِرنا ہے۔ لہٰذا اسی حساب سے عَمَل کر)۔ ([2])

کچھ نیکیاں کما لے جلد آخِرت بنا لے

کوئی نہیں بھروسہ اے بھائی! زندگی کا


 

 



[1]...وسائلِ بخشش، صفحہ:135-137 ملتقطًا۔

[2]...حلیۃ الاولیاء، یزید بن شریک التیمی، جلد:4، صفحہ:235، رقم:5361 خلاصۃً۔