Book Name:Maqam e Ibrahim Ke Faizal

مُقَدّس عِبادت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اِظْہارِ عشق کا غلبہ ہے اور یہی مزاجِ اسلام بھی ہے کہ بندے پر اللہ پاک کی محبّت غالِب رہے۔  ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا:

گُزرْ جا عقل سے آگے کہ یہ نُور                                                               چراغِ   راہ   ہے   منزل   نہیں   ہے([1])

یعنی عقل کی حُدُود سے گزر کر جب بندہ عشق کی منزِل میں پہنچتا ہے، تب وہ رُوحِ اسلام، رُوحِ دِین اور رُوحِ ایمان تک پہنچتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہمیں حج میں نظر آتی ہے۔ آپ دیکھئے! *نماز بہت اَفْضَل عِبَادت ہے، آخرت میں نماز کا جو ثواب ملے گا، وہ اپنی جگہ اس کے ساتھ ساتھ نماز کے طِبّی فائدے بھی ہیں، اس میں سائنسی حکمتیں بھی موجود ہیں مگر طواف کرنے کی بظاہر کوئی سائنسی حکمت سمجھ نہیں آتی  *روزہ عِبَادت ہے، اس کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے، اس کے فضائل بھی بہت ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اس کے طبّی اور سائنسی فائدے بھی بےشُمار ہیں مگر رَمئ جَمَرات (یعنی شیطانوں کو کنکر مارنے) کی  بظاہر کوئی حکمت نظر نہیں آتی *زکوٰۃ دینے کے بہت سارے مُعَاشَرْتی فائدے موجود ہیں مگر میدانِ عرفات میں ٹھہرنے کی سائنسی حکمتیں کیا ہوں گی؟ بظاہِر سمجھ نہیں آتا، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دیگر عِبَادات میں آخرت کے فائدے کے ساتھ ساتھ سائنسی فائدے بھی موجود ہیں، عقل بھی تقاضا کرتی ہے کہ *ہمیں وُضُو کرنا چاہئے *نماز پڑھنی چاہئے *زکوٰۃ دینی چاہئے *روزہ رکھنا چاہئے، کتنے غیر مسلم ہیں جو عِبَادت کے طور پر نہیں، عِلاج کے لئے وُضُو کرتےہیں، کتنے غیر مسلم زکوٰۃ اگرچہ نہیں دیتے مگر غریبوں کو مال دیتے ہیں، کتنے غیر مسلم ہیں جو عبادت کے طور پر نہیں، عِلاج کے لئے ڈائٹنگ کرتے


 

 



[1]...کلیات اقبال، بال جبریل، صفحہ:409۔