Book Name:Maqam e Ibrahim Ke Faizal

ہیں مگر حج وہ نِرالی عبادت ہے جہاں عقل کے تقاضے ختم ہو جاتے ہیں، عشق کے تقاضے شروع ہو جاتے ہیں۔ حج سراپا عشق ہے*اچھے خاصے مالدار*ہزاروں روپے کے کپڑے پہننے والے*ہئیر سٹائل پر ہزاروں روپے لگانے والے*2اَن سِلی چادریں پہن کر کبھی کعبے کا طواف کر رہے ہیں*کبھی صَفَا و مروہ کے چکّر لگا رہے ہیں*کبھی مَیدانِ عرفات میں جاتے ہیں*کبھی شیطانوں کو کنکر مارتے ہیں اور *آخر میں حلق کروا  لیتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ یہ اِظہارِ عشق ہے، یہ اپنے رَبّ کے ساتھ، اپنے خالِق و مالِک کے ساتھ اِظْہارِ محبّت ہے۔ حج پر جا کر بندہ اپنے عمل سے اس بات کا اِعْلان کرتا ہے کہ میں عقل کا پُجاری نہیں ہوں، میں اپنے رَبّ کی، اپنے محبوب نبی صَلَّی اللہُ علیہ وَآلہٖ و َسَلَّم  کی ہر بات کو چُوں چَراں کئے بغیر دِل سے تسلیم کرنے والا ہوں اور یہی مزاجِ اسلام ہے۔

حکمتیں اپنی جگہ مگر اَصْل مزاجِ اسلام یہی ہے کہ بندہ اپنی سوچیں، اپنی عقل، اپنی خواہشات مٹا کر اپنے رَبّ کے فرمان پر سرِ تسلیم خم کر دے۔

اِسی طرح یہ بھی مزاجِ اِسلام کا حصّہ ہے کہ اِسلام ہمیں بزرگوں کے ساتھ وابستگی سکھاتا ہے۔ یعنی بندہ اپنے بزرگوں، اللہ پاک کے نیک بندوں، نبیوں اور ولیوں  کا بااَدب رہے، ان کی محبّت اپنے دِل میں بسائے اور ان کے ساتھ اپنا رُوحانی تعلق مَضْبُوْط کرے، یہ بات بھی اِسلام کے مَزَاج میں شامِل ہے۔ آپ دیکھئے! قرآنِ کریم کا پہلا ہی صفحہ ہے، پہلی ہی سُورت ہے، ہم روزانہ نماز میں پڑھتے ہیں، اللہ پاک نے صِرَاطِ مُسْتَقِیْم کی پہچان بتائی،ارشاد ہوا:

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰ (پارہ:1، البقرۃ:6)

ترجمہ ٔکنزُالعِرفان:  اُن لوگوں کا رستہ جن پر تُو نے اِحْسان   کیا۔