Book Name:Shehar e Muhabbat
رسول تھے تو مدینے سے بھی خُوب محبّت رکھتے تھے۔ آپ کی مَحفِل میں اکثر دِیارِ محبوب کا تذکِرہ ہوتا رہتا تھا۔ اگر کوئی زائرِ مدینہ آپ کی خدمت میں حاضِر ہوتا تو اُس سے مدینۃُ المنوَّرہ کے حالات پوچھتے، مدینۂ پاک کے رِہائشی عاشقانِ رسول کی خیریت معلوم فرماتے اور اگر کوئی تَبَرُّک پیش کرتا تو بڑی خوشی سے قَبول فرماتے۔ ایک مرتبہ ایک حاجی صاحِب نے مدینۂ طیِّبہ کی کھجوریں پیش کیں، اُس وَقْت دروۂ حدیث (یعنی عالِم کورس کے آخری درجے کا سبق) جاری تھا،خُرمائے مدینہ(یعنی مدینے کی کھجوریں ) حاضِرین طَلَبہ میں تقسیم فرمائیں اور ایک کھجوراپنی داڑھوں میں دبا کر فرمانے لگے: خُرمائے مدینہ(یعنی کھجورِ مدینہ) اپنے منہ میں رکھ لی ہے، جب تک گُھل کر اندر جاتی رہے گی، ایمان تازہ ہوتا رہے گا۔([1])
کھجورِ مدینہ سے کیوں ہو نہ اُلفت کہ ہے اس کو آقا کے کُوچے سے نسبت
مدینے میں اپنے بال وناخن دفن فرمائے
حُضُور مُحَدِّثِ اعظم پاکستان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کا ایک اندازِ محبّت یہ بھی ہے کہ جب آپ کو مدینۂ پاک حاضِری کی سَعَادت نصیب ہوئی تو وہاں سے واپسی کے وقت آپ نے اپنے کچھ بال اور ناخُن مدینہ شریف میں دفن کر دئیے اور بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم! مدینۂ پاک میں مرنا تو میرے اختیار میں نہیں البتہ اپنے جسم کے کچھ حصّے دَفْن کر کے جا رہا ہوں، ہم غریبوں کے لئے یِہی غنیمت ہے۔([2])
جان و دل چھوڑ کر یہ کہہ کے چلا ہوں اعظمؔ
آ رہا ہوں مِرا سامان مدینے میں رہے