Book Name:Shehar e Muhabbat
میں صرف مدینہ پاک کی تو یہ شان ہے کہ یہاں فقیروں کو بے مانگے ہی عطا کر دیا جاتا ہے۔
مفتی نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کا ذِکْرِ خیر
پیارے اسلامی بھائیو! اعلیٰ حضرت کے والِدِ ماجِد مولانا مفتی نقی علی خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی بہت بڑے عاشِقِ رسول تھے، الحمد للہ! عاشِقِ مدینہ بھی تھے، ذِیْقعدہ کی 29 یا 30 تاریخ کو آپ کا عرس ہوتا ہے، کوشش کر کے اپنے *گھروں میں*دُکانوں پر*آفسز میں آپ کے ایصالِ ثواب کا اہتمام کیجئے! اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! ولئ کامِل کا فیضان نصیب ہو گا۔ آئیے! آپ کے عشقِ مدینہ کا ذِکْر سنتے ہیں:
عاشقِ رسول کا سَفَرِ مدینہ (حکایت)
1295 ہجری کی بات ہے، شوَّال کا مہینہ تھا، والِدِ اعلیٰ حضرت مولانا نقی علی خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت زیادہ بیمار ہوئے، جسم کی ظاہِری طاقت میں کافِی کمزوری آگئی، اِسی حالت میں ایک روز آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ آرام فرما تھے، ظاہِری آنکھیں بند تھیں مگر قسمت بیدار تھی، دِل کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، مکی مَدَنی آقا، بگڑی بنانے والے آقا، دو جہاں کے داتا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے کرم فرمایا، اپنے سچے عاشق کے خواب میں تشریف لے آئے۔
سَرِ بالیں، انہیں رَحْمت کی ادا لا ئی ہے حال بگڑا ہے تو بیمار کی بَن آئی ہے
سرکارِ نامدار، مکی مَدَنی تاجدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے اپنے سچے عاشق کو حکم فرمایا کہ مدینے چلے آؤ...! بس اب کیا تھا، مولانا نقی علی خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آنکھ کھلی، اگرچہ طبیعت ناساز تھی، ظاہری جسمانی طاقت میں کافِی کمزوری تھی مگر مَدَنی آقا، محبوبِ خُدا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حکم فرما چکے تھے، چنانچہ مولانا نقی علی خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فوراً حج اور مدینۂ منورہ