Book Name:Namaz Se Madad Chaho

ہے، اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے: اے اللہ پاک! تُو شِفَا دینے والا ہے، مجھے شِفَا نصیب فرما۔

اس مثال میں * جو بیمار ہے، وہ مُسْتَعِیْن  (یعنی مدد مانگنے والا) ہے * چونکہ وہ اللہ پاک سے شِفَا مانگ رہا ہے، لہٰذا رَبِّ کائنات مُسْتَعَان  یعنی وہ ہستی ہے جس مدد مانگی گئی * بیماری جس سے شِفَا مانگی جارہی ہے، وہ مُسْتَعَان عَلَیْہ ہے * اور اِس شخص نے مدد مانگنے کے لئے دُعا کا رستہ اِختیار کیا تو یہ دُعا ہے: مُسْتَعَانٌ بِہٖ (یعنی وہ ذریعہ جو مدد مانگنے کے لئے اِختیار کیا گیا)۔

اب آیتِ کریمہ سنئے! اللہ پاک نے فرمایا:

وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-   (پارہ:1، البقرۃ:45)

تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان:اور صبر اور نماز سے مدد حَاصِل کرو۔

یعنی اے بنی اسرائیل! مدد چاہو! صَبر کے ذریعے اور نماز کے ذریعے۔

اب یہاں مَدد مانگنے والے ہیں: بنی اسرائیل۔ مدد جس سے مانگی جائے گی، وہ ہے: اللہ پاک۔ مدد مانگنے کا ذریعہ ہے: صبر اور نماز۔ مگر وہ مُشکِل، وہ پریشانی، وہ ضُرُورت کیا ہے جس پر مدد مانگنی ہے؟

اس بات کو ذرا تَوَجُّہ سے سمجھئے گا، اِنْ شَآءَ اللہ الْکَرِیْم! اِیمان تازہ ہو گا، اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو فرمایا: صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگو! مدد مانگنی کس بات پر ہے؟ اِس کو  ہم نے سمجھنا ہے، ذرا اس آیتِ کریمہ سے پچھلی آیات سنئے! بنی اسرائیل سے بات یہ ہو رہی تھی کہ اے بنی اسرائیل! اللہ پاک کے آخری نبی، رسولِ ہاشمی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم تشریف لے آئے ہیں، اُن پر اِیمان لے آؤ! اُن کا کلمہ پڑھ لو! اُن کے دامنِ کرم سے لپٹ جاؤ! اور