Book Name:Bani Israil Ka Bachra
ایک دِل میں اتنی محبتیں کیسے...؟
ایک مرتبہ حضرت امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے اپنے والِدِ محترم حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ سے پوچھا: اَبُّو جان! کیا آپ کو مجھ سے محبّت ہے؟ فرمایا: بالکل ہے۔ پوچھا: بھائی حُسَین سے بھی ہے؟ فرمایا: بالکل ہے۔ پوچھا: اَمِّی جان (سیدہ فاطمہ رَضِیَ اللہُ عنہا) سے بھی ہے؟ فرمایا: بالکل ہے۔ پوچھا: ناناجان حضرت مُحَمَّدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم سے بھی محبّت ہے۔ فرمایا: بالکل ہے۔ پِھر پوچھا: اللہ پاک سے بھی محبّت ہے؟ فرمایا: ہاں! بالکل ہے۔ عرض کیا: اَبُّو جان! بات سمجھ نہیں آئی، دِل ایک ہے، ایک دِل میں تو ایک ہی مَحْبُوب رہ سکتا ہے، آپ کے ایک دِل میں اتنی ساری محبتیں کیسے سما گئی ہیں؟ اب مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ جو بَابُ مَدِیْنَۃِ الْعِلْمِ (یعنی شہرِ عِلْم کا دروازہ) ہیں، اُن کا جواب سنیئے! فرمایا: بیٹا! کیا تم دیکھتے نہیں ہو، جب نماز کا وقت ہو جاتا ہے تو میں تم سب سے الگ ہو کر اللہ پاک کے حُضُور حاضِر ہو جاتا ہوں (یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصل میں ایک ہی محبّت ہے، باقی سب محبتیں اللہ پاک کی محبّت کی وجہ سے ہیں)۔ ([1])
غرض کہ یہ اُمّت اَلْحَمْدُ للہ! اب بھی تَوْحِیْد پر قائِم ہے۔ ہاں! *ہم صحابۂ کرام سے *اَہْلِ بیتِ پاک سے *اَوْلیائے کرام سے محبّت کرتے ہیں، یہ بھی اللہ پاک ہی کی محبّت کا اَثَر ہے، اُسی محبّت کا فیضان ہے، ورنہ جب سجدہ کرنے کا وقت ہوتا ہے تو صُورت یہ ہوتی ہے کہ
ایک ہی صَفْ میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز