Book Name:Khudai Ahkam Badalne Ka Wabal
زیادہ ہے مگر شریعت کی حکمت ہماری چھوٹی عقل سے بہت اُونچی ہے، اِس لئے جو کہا گیا، جتنا کہا گیا، جیسے کہا گیا، وہی، اتنا ہی اور ویسے ہی کیا کریں۔
جیسا پڑھایا، ویسے ہی پڑھو...!!
مسلم شریف میں روایت ہے، ایک مرتبہ پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت بَرَاء بن عازِب رَضِیَ اللہُ عنہ کو سوتے وقت کی ایک دُعا یاد کروائی، اس میں تھا: اٰمَنْتُ بِنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ (میں ایمان لایا تیرے نبی پر جنہیں تُو نے بھیجا)۔ حضرت بَرَاء فرماتے ہیں: میں نے یہ دُعا دُہراتے وقت پڑھا: اٰمَنْتُ بِرَسُوْلِکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ (یعنی میں ایمان لایا تیرے رسول پر جنہیں تُو نے بھیجا)۔
یعنی لفظِ نبی کی جگہ لفظِ رسول پڑھا، اب دیکھئے! لفظِ نبی اور رسول میں زیادہ کوئی فرق تو نہیں ہے، عموماً ایک ہی معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں مگر پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے منع کردیا، فرمایا: وہی لفظ پڑھو جو میں نے پڑھائے ہیں، کہو: اٰمَنْتُ بِنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ۔([1])
پتا چلا؛ شریعت نے جو دُعائیں ہمیں سکھائی ہیں، جیسے بتائی گئی ہیں، ویسے ہی پڑھنی ہیں۔ مثلاً نماز کے اندر رکوع میں پڑھتے ہیں: سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم۔ سجدے میں پڑھتے ہیں: سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ۔ ہم کہیں کہ دونوں کا معنیٰ تو ایک جیسا ہی ہے، رکوع میں سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ پڑھ لوں، سجدے میں سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھ لُوں تو یہ درست نہیں ہے، خِلافِ سُنّت ہے۔ ہاں! کبھی کبھار بُھول چُوک میں ایک آدھ بار ایسا ہو گیا تو نماز ہو جائے گی، کوئی فرق
[1]...مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب ما یقول عند النوم ...الخ، صفحہ:1043، حدیث:2710۔