Book Name:Khudai Ahkam Badalne Ka Wabal
جُھک کر داخِل ہونے کا حکم کیوں دیا گیا؟ اِس کا جواب ہمیں دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے، اللہ پاک کا ارشاد ہے:
اَلْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ (پارہ:15، الاسراء:1)
مَعْرِفَۃُ الْقُرْآن: مسجد اقصیٰ وہ جو ہم نے برکتیں رکھیں اس کے اردگرد ۔
عُلَمائے کرام فرماتے ہیں: مَسْجِدِ اقصیٰ کے اِرْد گِرْد (یعنی بَیْتُ الْمُقَدَّس والی بستی) کی بَرَکت یہ ہے کہ یہاں اللہ پاک کے نبیوں اور وَلِیُّوں کے مزارات ہیں، جن پر دِن رات، صبح و شام چَھمَا چَھم رحمت برستی رہتی ہے۔([1])
بنی اسرائیل چونکہ گنہگار تھے، یہ خُود رحمت کے لائِق نہیں تھے، لہٰذا حکم دیا گیا کہ بَیْتُ الْمُقَدَّس جاؤ! وہاں یُونہی دِن رات رحمت برس رہی ہے، اُس رحمت کے چھینٹے تُم پر بھی آئیں گے تو تمہاری تَوْبَہ قُبُول کر لی جائے گی۔
سُبْحٰنَ اللہ! مَعْلُوم ہوا اَللہ کے نیک بندوں کے مزارات کے پاس، اُن کی بَرَکت سے توبہ جلد قبول ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ مزاراتِ انبیا، مزاراتِ صحابہ اور مزاراتِ اَوْلیا پر حاضِری دیا کریں، ہم تو گنہگار ہیں، گناہوں میں لتھڑےہوئے ہیں مگر اللہ پاک کے نیک بندوں کے مزارات بہت پاک جگہیں ہیں، وہاں ہر وقت ہی رحمتوں کی برسات ہے، ہم وہاں پہنچیں گے، برستی ہوئی رحمت میں غوطہ لگا لیں گے، اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! بیڑا پار ہو جائے گا۔
بَڑا مشہور واقعہ ہے اور واقعہ بھی وہ جو بُخاری شریف میں ہے، میرے آقا و مولیٰ، مکی