Book Name:Nafarman Bandar Ban Gaye
دوسرا سبق یہ مِلا کہ ہمیں مہلت سے فائدہ اُٹھانا چاہئے! یہ اللہ پاک کی بڑی رحمت ہے کہ وہ مالِکِ کریم گُنَاہ پر فوری پکڑ نہیں فرماتا بلکہ مہلت عطا فرماتا ہے، بندہ گُنَاہ کرتا ہے، اُسے مہلت ملتی ہے، پِھر گُنَاہ کرتا ہے، پِھر مہلت ملتی ہے، پِھر گُنَاہ کرتا ہے، پِھر مہلت ملتی ہے، یوں اللہ پاک مہلت عطا فرماتا رہتا ہے، آخر جب بندہ نہیں سُدَھْرتا تو پکڑ فرما لیتا ہے۔
اُن بنی اسرائیل کو بھی مہلت عطا کی گئی تھی، ایسا نہیں کہ ادھر اُنہوں نے نافرمانی کی، ہفتے کے دِن مچھلی کا شکار کیا اور اگلے دِن بندر بن گئے، نہیں...!! بلکہ روایات میں ہے: یہ لوگ 70 سال تک اُس گُنَاہ میں مبتلا رہے۔ اُس قبیلے کے نیک لوگ اُنہیں سمجھاتے رہے، نیکی کی دعوت دیتے رہے، جب نیکی کی دعوت قبول نہ کی، سمجھانے والوں کو خاطر میں نہ لائے، یُوں کرتے کرتے 70 سال گزر گئے، تب اُن پر قہر برسا اور یہ بندر بن گئے۔([1])
یہ 70 سال کا عرصہ اُن کے لئے مہلت تھی مگر اُن کا حال کیا تھا؟ کتابوں میں لکھا ہے: جب نیک لوگ اُنہیں سمجھاتے کہ بھائی! گُنَاہ کا کام چھوڑ دو! نافرمانی سے باز آجاؤ...!! یہ کہتے: کچھ بھی تو نہیں ہوتا، اگر عذاب آنا ہی ہوتا تو اتنے عرصے میں آ چکا ہوتا۔ ([2])
آہ! افسوس! اُنہوں نے مہلت سے فائدہ نہ اُٹھایا، گُنَاہ سے باز نہ آئے، آخر اُن پر قہر برس گیا۔
ہمارے ہاں بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ لوگوں کو گُنَاہ سے روکیں تو کچھ اُسی قسم کے جواب ملتے ہیں: مِیَاں کچھ نہیں ہوتا...!! سبھی جُھوٹ بَول کر کماتے ہیں۔ فُلاں فُلاں بھی تو سُودی لین دین کرتے ہیں، اُنہیں تو کچھ نہیں ہوا، قبر و آخرت کی بات کی جائے تو