Koh e Toor Saron Par Latak Gaya

Book Name:Koh e Toor Saron Par Latak Gaya

کی حاجت نہیں ہے، مَحْبوب  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  کے مبارَک چہرے پر داڑھی جگمگاتی تھی، عاشق کے لئے یہی کافی ہے۔روایات میں ہے: فِرشتے جب آپس میں قسم کھاتے ہیں تو کہتے ہیں: اس اللہ پاک کی قسم جس نے بنی آدم کو داڑھی سے زینت بخشی۔([1])

پتا چلا؛ داڑھی زینت ہے، یہ حُسْن ہے، میں خُود سے نہیں کہہ رہا، فرشتے کہتے ہیں۔ پِھر ہم اپنا یہ حُسْن اپنے ہاتھوں سے کیوں گنوائیں...؟ رکھ لینی چاہئے۔ اللہ پاک توفیق بخشے *اسی طرح شلوار یا پینٹ وغیرہ کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے لٹکانا بھی خلافِ سنّت ہے۔([2]) اس سے بھی بچنا چاہئے۔

خیر! یہ صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  کے جذبۂ اِطاعت کی چند مثالیں میں نے پیش کیں، اِس میں ہمارے لئے دَرْس ہے کہ ہم بھی بات ماننے والے بن جائیں۔ ضِدْ اور ہَٹْ دَھرمی اِنسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ ہم اَلحمدُ لِلّٰہ! مسلمان ہیں، ہم ماننے والے ہیں۔ مسلمان کا لفظی معنیٰ ہی یہی ہے: سَرِ تسلیم خم کرنے (یعنی حق بات کو سَر جُھکا کر مان لینے) والا۔ لہٰذا ہمیں ہمیشہ درست بات کو ماننے کی طرف مائِل رہنا چاہئے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ضِدِّی لوگ بھی پائے جاتے ہیں، انہیں قرآنِ کریم کی آیات سُناؤ، اَحادیث پڑھ کر بتاؤ، عُلَمائے کرام جو قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی شرعِی مسائِل بیان کرتے ہیں، ان کے ارشادات سُناؤ! یہ لوگ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ یہ بہت بُری بات ہے، جب اللہ پاک کی، اُس کے پیارے رسول، رسولِ مقبول  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  کی بات آگئی، شریعت کا مسئلہ درست ذریعے سے ہم تک پہنچ گیا تو اب اُسے تسلیم کرنے میں دَیر نہ لگائیں، شریعت کے


 

 



[1]...قوت القلوب، الفصل السادس والثلاثون، ذکر فی اللحیۃ من المعاصی...الخ، جلد:2، صفحہ:240۔

[2]... فتاوٰی رضویہ، جلد:22، صفحہ:167 خلاصۃً۔