حضرت عائشہ کے اعلیٰ اوصاف(قسط7)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ:ازواجِ انبیا

موضوع:حضرت عائشہ کے اعلیٰ اوصاف(قسط7)

شعبہ ماہنامہ خواتین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ سے پیوستہ:محبوبہ محبوبِ خدا اُمُّ المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو جو محبت  تھی اس کا ذکر ابتدائی دو قسطوں  میں گزر چکا ہے،  مگر وہاں یہ ذکر رہ گیا تھا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے کس قدر محبت فرماتی تھیں،چنانچہ اس حوالے سے سیدہ عائشہ کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو سیرت و حدیث کی کتب میں کئی واقعات ایسے ملیں گے جو سیدہ عائشہ کے عشقِ رسول  میں فنا ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔

یاد رکھئے!محبت کی بنیاد تین چیزیں ہوتی ہیں:جمال،کمال اور نوال یعنی احسان۔یعنی انسان جس سے محبت کرتا ہے تو اس کے پیشِ نظر محبوب کی صورت کا حسن ہوتا ہے یا سیرت کا کمال و اکمل ہونا یا وہ اس کے احسانات کی وجہ سے اسے محبوب جانتا ہے۔چنانچہ اس اعتبار سے اگر اللہ پاک کے پیارے حبیب  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی ذاتکو دیکھیں تو آپ ہر وصف میں با کمال ہیں،کوئی آپ کا ثانی نہیں،حُسنِ صورت میں کوئی مثل ہے نہ حُسنِ سیرت میں کوئی مثال۔([1])چنانچہ سیدہ عائشہ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ آپ  حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت ہی نہیں رکھتی تھیں، بلکہ یہ محبت عشق کی صورت اختیار کر چکی تھی، محبت میں حد سے تجاوز کرنا عشق کہلاتا ہے۔(2)اور عاشق خواہ کوئی بھی ہو وہ ہر لمحہ اپنے محبوب کی رضا اور اس کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ، اس سے ملاقات کا شوق رکھتا، اس کی ہر ادا کو اپنانے کی کوشش کرتا اور ہر دم اسی کا ذکر کرتا  رہتا ہے۔نیز اپنے محبوب کی بے انتہا تعظیم و تکریم کرتا، اس کی شان و عظمت سن کر خوش ہوتا اور اپنے محبوب کا عیب سننا یا اس کی شان میں ہلکی سی گستاخی و کوتاہی بھی ہرگز گوارا نہیں کرتا، اس کے دشمنوں کو دشمن جانتا، اس کے پیاروں کو چاہتا اور اس کی نسبتوں سے بھی پیار کرتا ہے اور یہی وہ عشقِ رسول ہے جس کی جھلک سیدہ عائشہ کی حیاتِ طیبہ میں جگہ جگہ نظر آتی ہے۔چنانچہ آپ کے عشقِ مصطفےٰ پر مبنی کثیر واقعات میں سے چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے:

حضور کی رضا و توجہ چاہنے کی مثال

اُمُّ المومنین سیدہ عائشہ صِدِّیقہ  رضی اللہ عنہا  حضور کی رضا و خوشنودی کا ہمیشہ خیال رکھتی اور حضور کی نظرِ کرم اور توجہ  کی منتظر رہتیں تھیں، یہی وجہ ہے کہ آپ حضور کی خدمت کی خاطر(نفلی)روزہ بھی نہ رکھتی تھیں۔جیسا کہ آپ خود فرماتی ہیں:مجھ پر رمضان کے قضا روزے ہوتے تھے مگر میں حضور کی خدمت میں مشغول ہونے کی وجہ سے ماہِ شعبان کے علاوہ ان کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔(3)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: (یعنی)دس ماہ میں ہر وقت نبی اکرم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم    کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے تیار  رہتی تھی کہ نہ معلوم آپ  مجھے کس وقت شرفِ قُربت عنایت فرمائیں، اس لئے روزہ قضا نہ کرتی تھیں۔معلوم ہو رہا ہے کہ اُمُّ المومنین ان دس ماہ میں نفلی روزے بھی نہ رکھتی تھیں۔جب فرض قضا نہ کر سکتی تھیں تو نفل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔(4)

حضور کی نسبتوں سے پیار کی مثال

سیدہ عائشہ صِدِّیقہ  رضی اللہ عنہا حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی نسبت کی وجہ سے حضور کے عزیز و اقارب کا بھی حد درجہ احترام فرمایا کرتیں،اس کی ایک واضح مثال بخاری شریف کی اس حدیثِ پاک میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنی بہن حضرت اسماء بنتِ صدیق کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن زبیر  رضی اللہُ عنہما  سے راہِ خدا میں کثرت سے خرچ کرنے سے منع کرنے پر خفا ہو گئیں، حضرت عبدُ  اللہ بن زبیر نے راضی کرنے کی کافی کوشش کی اور جب دیکھا کہ رضامندی کی کوئی صورت نہیں پیدا ہو رہی تو انہوں نے حضور کے ننھیالی رشتے داروں یعنی بنو زُہرہ خاندان کے چند بزرگوں سے سفارش کروائی کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ سیدہ عائشہ حضور کے ننھیال والوں کی بات ضرور مانیں گی اور انہیں کبھی نہیں ٹالیں گی۔چنانچہ ایسے ہی ہوا کہ سیدہ عائشہ نے حضور کی نسبت کی وجہ سے حضور کے ننھیالی بزرگوں کی سفارش پر انہیں معاف فرما دیا۔(5)

حضور کی بے ادبی پر اظہارِ ناراضی کی مثال

عاشق ہمیشہ اپنے محبوب کی تعظیم و تکریم کا خیال رکھتا ہے، اس کی شان و عظمت کے چرچے سننا چاہتا ہے اور دوسروں سے سن کر خوش ہوتا ہے اور اگر کوئی اس کے محبوب میں کوئی عیب تلاش کرنے کی کوشش کرے یا اس کی شان میں ہلکی سی گستاخی و کوتاہی بھی کرے تو وہ ہرگز گوارا نہیں کرتا اور اپنی کوشش بھر منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔چنانچہ ایسے ہی ایک موقع پر اُمُّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ ُعنہا نے بھی حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے چند یہودیوں کو جو منہ توڑ جواب دیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔بخاری شریف میں یہ واقعہ کچھ یوں منقول ہے کہ کچھ یہودی حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی بارگاہ میں  آئے اور انہوں نے السلام علیکم کے بجائے اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ کہا،یعنی انہوں نے اپنی بری نیت کی بنا پر سلام کو سام یعنی موت کے لفظ سے بدل دیا، اس پر حضور نے اگرچہ انہیں وعلیکم ارشاد فرما کر بڑا ہی خوبصورت جواب دیا کہ جو کچھ تم نے مجھے کہا ہے وہی سب کچھ تم پر ہو۔مگر سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے عشقِ رسول نے یہ گوارا نہ کیا کہ کوئی ان کے سامنے ان کے محبوب کی شان میں گستاخی کرے،چنانچہ آپ نے انہیں بڑے ہی غضب ناک انداز میں یہ جواب دیا:عَلَيْكُمْ،  وَلَعَنَكُمُ اللهُ، وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْكُمْ  یعنی تم نے جس موت کو میرے محبوب پر نازل ہونے کا کہا ہے وہ تم سب پر نازل ہو،بلکہ تمہاری اس بری نیت کی وجہ سے اللہ پاک تم پر لعنت کرے اور تم پر اپنا غضب بھی فرمائے۔(6) مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں:اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ ُعنہا  کا یہ غضب و غصّہ حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی والہانہ محبت کی بنا پر تھا کہ تم نے محبوب کو یہ کیوں کہا!(7)

حضور کے حسن و  جمال پر فداہونے  کا اظہار

عاشق اپنے محبوب کے حسن پر بھی فدا ہوتا ہے، چنانچہ سیدہ عائشہ کے متعلق مروی ہے کہ آپ اگرچہ حسن و جمالِ مصطفےٰ کے نظاروں سے ہمیشہ اپنی نگاہوں کو فیض یاب کرتی ہی رہتی تھیں، مگر پھر بھی آپ کی نگاہیں حضور کے چہرۂ اقدس کی زیارت سے تھکتی نہ تھیں۔چنانچہ ایسے ہی ایک موقع پر جب حضور اپنا جوتا مبارک سی رہے تھے اور سیدہ عائشہ اگرچہ بظاہر چرخہ کات رہی تھیں مگر آپ کی نگاہیں حضور کے سراپائے ناز پر جمی ہوئی تھیں کہ اچانک دیکھتی ہیں کہ حضور کی مبارک پیشانی پر پسینا ظاہر ہوا اور اس سے نور کی شعاعیں پھوٹنے لگیں۔ اگرچہ آپ ہر وقت حضور کے دیدار سے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھایا کرتی تھیں،لیکن حضور کے حُسن کے اس پہلو کو یوں دیکھا تو دم بخود ہو گئیں۔ادھر حضور نے بھی ان کی حیرانی کو بھانپ لیا تو پوچھا:اے عائشہ!کیا ہوا ہے کہ اتنی حیرت میں ہو؟عرض کی:آپ کی مبارک پیشانی پسینا بہا رہی ہے اور اس خوشبو دار پسینے سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں۔اگر(عرب کا مشہور شاعر)ابو کبیر ہُذلی آپ کو دیکھ لیتا تو جان لیتا  کہ اس کے شعر کے زیادہ حق دار آپ ہیں۔حضور نے پوچھا:اے عائشہ!ابو کبیر کیا کہتا ہے؟عرض کی:وہ کہتا ہے:

وَمُبَرَّأٌ مِنْ كُلِّ غَيْرِ حَيْضَۃٍ                وَفَسَادِ مُرْضِعَۃٍ وَدَاءٍ مُغَيِّلِ

فَإِذَا نَظَرْتَ اِلیٰ اَسِرَّۃِ وَجْہِہِ         بَرَقَتْ كَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَہَلِّلِ

ترجمہ:وہ حیض کے آخری ایام میں کئے گئے جماع، دودھ پلانے والی کی خرابی اور حالتِ حمل کے دودھ پینے سے پیدا ہو نے والی بیماری سے پاک ہے اور جب تم اس کی پیشانی کی لکیروں کو دیکھو گے تو وہ چمکنے والے بادل کی طرح چمک رہی ہوں گی۔سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں:(میرے اشعار سن کر)حضور نے اٹھ کر میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دے کر ارشاد فرمایا:اے عائشہ!اللہ پاک تمہیں میری طرف سے بہتر بدلہ عطا فرمائے۔تم مجھ سے اتنا خوش نہیں ہوئی جتنا میں تم سے خوش ہوا۔(8)

عام طور پر محبوب  کے حسن و جمال کا ذکر جب کوئی عاشق کرتا ہے تو وہ بہت مبالغہ کرتا ہے، مگر  حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حُسنِ بے مثال کا ذکر سیدہ عائشہ نے جن الفاظ میں فرمایا ہے وہ خود ایک بہت بڑی حقیقت ہے اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں۔چنانچہ آپ فرماتی ہیں:

فَلَوْ سَمِعُوْا فِیْ مِصْرَ اَوْصَافَ خَدِّہِ  لَمَا بَذَلُوْا فِیْ سَوْمِ یُوْسُفَ مِنْ نَقْدٍ

یعنی اگر حضور کے مبارک گال کے اوصاف مصر والے سن پاتے تو حضرت یوسف کی خریداری میں مال ودولت خرچ نہ کرتے۔

لَواحِیْ زُلَیْخَا لَوْ رَأَیْنَ جَبِیْنَہُ لَاَثَرْنَ بِالْقَطْعِ الْقُلُوْبِ عَلَی الْاَیْدِی

یعنی اگر زلیخا کو ملامت کرنے والی عورتیں حضور کی پیشانی شریف دیکھ پاتیں تو ہاتھوں کے بجائے اپنے دل کاٹنے کو ترجیح دیتیں۔(9)

جے سوہنا میرے دکھ وچ راضی تے میں سکھ نوں چلھے پاواں

سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  اگر محبوبہ محبوبِ خدا تھیں تو سیدہ عائشہ بھی حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  سے عشق کی حد تک محبت فرماتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ آپ ہمیشہ اس حال پر راضی رہیں جس میں حضور نے انہیں رکھا۔مثلاً حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فقر و فاقہ پسند تھا،  بسا اوقات کئی کئی راتیں مسلسل فاقہ فرماتے،(10)  حضور کی اس اختیاری بھوک کو دیکھ کر سیدہ عائشہ ایک مرتبہ رونے لگیں  اور بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ اللہ پاک سے کھانا کیوں طلب نہیں فرماتے تاکہ وہ آپ کو کھلائے؟تو حضور نے ارشاد فرمایا:اے عائشہ!اس ذات کی قسم!جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!اگر میں اپنے رب سے سوال کروں کہ یہ دنیا کے پہاڑ سونے کے بن کر میرے ساتھ چلیں تو زمین میں جہاں میں چاہتا وہ ان پہاڑوں کو میرے ساتھ چلا دیتا لیکن میں نے دنیا میں پیٹ بھرنے پر بھوک کو، دنیوی مالداری پر فقر کو اور دنیوی خوشی پر غم کو اختیار کیا ہے۔(11)

اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت میں سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نبیِ پاک  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   کا پیٹ مبارک کبھی بھی نہ بھرا اور نہ کبھی اس کا شکوہ کیا،آپ کو شکم سیر ہونے سے فاقہ زیادہ پسند تھا،جب میں آپ کے پیٹ مبارک پر ہاتھ پھیرتی تو آپ کی بھوک کی حالت دیکھ کر مجھے آپ پر رحم آتا، چنانچہ ایک مرتبہ میں نے روتے ہوئے عرض کی:یا رسولَ اللہ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !میری جان آپ پر قربان!آپ  اگر دنیا میں اتنی غذا لے لیں جو آپ کی بھو ک کے  لئے کافی ہو(تو کیا حرج ہے؟)تو نبیِ پاک  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   نے ارشاد فرمایا:اے عائشہ! مجھے اس دنیا سے کیا تعلق؟پھر ارشاد فرمایا:مجھ سے پہلے جو ہمت والے  رسول گزرے ہیں انہوں نے اس سے زیادہ تکلیف دہ حالت پر صبر کیا اور وہ اسی حالت میں چلے گئے۔جب وہ ربِّ کریم کی بارگاہ میں پہنچے تو اس نے ان کے انجام کو بہت عزت والا بنا دیا اور ان کے ثواب کو اور بڑھا دیا، مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ میں اپنی زندگی خوشحال گزاروں اور کل(قیامت میں) درجے میں اپنے بھائیوں سے پیچھے رہ جاؤں۔(12)

سیدہ عائشہ کے عشقِ رسول پر ہزار جانیں قربان!حضور کے اس اختیاری فقر و فاقہ میں سیدہ عائشہ نے بھی دیگر مقدس بیویوں کے ساتھ مل کر حضور کا بھرپور ساتھ دیا، جیسا کہ آپ فرماتی ہیں:چالیس چالیس دن ایسے گزر جاتے کہ حضور کے مبارک گھر میں چراغ جلتا نہ چولہا۔پوچھا گیا:پھر آپ کس طرح گزارہ کرتے تھے؟فرمایا:دو کالی چیزوں یعنی پانی اور کھجور پر۔(13) سیدہ عائشہ کو حضور کا یہ اختیاری فقر اتنا محبوب تھا کہ حضور کے وصالِ ظاہری کے بعد جب فتوحات کا سلسلہ عام ہوا اور مال و دولت کی کثرت ہونے لگی تو بھی آپ اپنے پاس کچھ نہ رکھتیں، بلکہ جو کچھ بھی تحائف وغیرہ آتے انہیں صدقہ کر دیتیں۔(14)  مثلاً ایک مرتبہ کچھ کپڑے، چاندی اور دیگر سامان آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا جو آپ کے حجرے کے پاس رکھ دیا گیا،آپ باہر تشریف لائیں تو یہ سب دیکھ کر رونے لگیں اور ارشاد فرمایا:حضور نے اس قسم کا مال و اسباب نہیں پایا۔لہٰذا آپ نے وہ سارا سامان راہِ خدا میں تقسیم کر دیا اور کچھ بھی بچا کر نہ رکھا حالانکہ اس وقت آپ روزے سے تھیں اور آپ کے پاس ایک مہمان بھی ٹھہرا ہوا تھا، مگر آپ نے خشک روٹی اور زیتون کے ساتھ روزہ افطار فرمایا۔(15)ایک مرتبہ آپ نے اپنا مال و اسباب ایک لاکھ درہم میں بیچ کر رقم راہِ خدا میں تقسیم کر دی اور جو کی روٹی سے روزہ افطار کیا۔(16)اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ آپ سے کسی  مسکین نے کچھ مانگا، اس وقت آپ روزہ دار تھیں اور پاس صرف ایک ہی روٹی تھی، آپ نے خادمہ سے فرمایا کہ یہ روٹی اس مسکین کو دے دو۔ اس نے عرض بھی کی کہ پھر روزہ کس سے افطار کریں گی؟مگر آپ نے روٹی اس مسکین کو دینے کا حکم دیا اور اپنے لئے کچھ بھی بچا کر نہ رکھا۔(17)

سبحان اللہ!حضور کے بعد مال و دولت کی کثرت کے باوجود سیدہ عائشہ کی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہ ہوئی اور آپ نے اپنی باقی زندگی حضور کی یاد میں ایسے ہی گزاری جیسے حضور کے ساتھ گزری تھی۔البتہ!جب بھی آپ کو حضور کی یاد آتی، آپ اشک بار ہو جاتیں، جیسا کہ آپ خود فرماتی ہیں:اگر میں کبھی پیٹ بھر کر کھا لیتی ہوں تو میرا جی رونے کو چاہتا ہے اور میں رونے لگتی ہوں۔جب وجہ پوچھی گئی تو فرمایا:مجھے میرے سرتاج، صاحِبِ معراج  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وہ حالت یاد آتی ہے،جس پر آپ دنیا سے جدا ہوئے کہ کبھی بھی دن میں دو مرتبہ روٹی اور گوشت سے پیٹ بھرنے کی نوبت نہ آئی۔(18)

عائشہ  صدیقہ  روتی  تھیں  نبی  کی  بھوک  پر

ہائے!بھرتی ہیں غذائیں ہم پیٹ میں ٹھونس کر

سیدہ عائشہ عشقِ رسول کے اس مقام پر فائز تھیں جہاں ان کے پیشِ نظر صرف حضور کی ذات تھی،حضور کی خوشی میں خوشی محسوس کرتیں اور دکھ میں دکھی ہو جاتیں، حضور کو غم زدہ دیکھتیں تو خود رونے لگتیں خواہ وجہ معلوم ہوتی یا نہ معلوم ہوتی۔جیسا کہ ایک روایت میں ہے:حَجّۃُ الْوَداع کے موقع پر حضور حجون کی گھاٹی(اب اس جگہ کو جَنَّتُ الْمَعْلٰی کہا جاتا ہے) سے گزرے تو رنج و غم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے، سیدہ عائشہ نے جو حضور کو یوں اشک بار دیکھا تو آپ بھی رونے لگیں،(19) حالانکہ آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ حضور کیوں آبدیدہ ہوئے ہیں۔یہی نہیں ایک روایت میں تو یہاں تک بھی مروی ہے کہ آپ حضور کے بعد حضور کی جدائی میں ہمیشہ آنسو بہاتی رہیں۔(20)اللہ پاک سیدہ عائشہ کے عشق رسول کے صدقے ہمیں بھی عشقِ رسول کی دولت عطا فرمائے۔

 اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  



[1]مواہب اللدنیہ، 2/ 478مفہوماً2لسان العرب، 2/ 2635 3مسلم، ص 445، حدیث:2687 4مراۃ المناجیح،3/175 5بخاری،2/475، حدیث:3503ماخوذاً 6بخاری،4/108،حدیث:6030 7مراۃ المناجیح،6/ 319 8سننِ کبریٰ للبیہقی ، 7/694،حدیث:15427 9زرقانی علی المواہب، 4/390 0ترمذی،4/ 160، حدیث:2367 Aتفسیر روح البیان،2/130 Bالشفا،1/143،142Cمسند طیالسی، جز:6،ص207،حدیث:1472 Dبخاری، 2/475،حدیث:3505 Eحلیۃ الاولیاء، 2/59،رقم:1475 Fحلیۃ الاولیاء،2/58،رقم:1474 Gمؤطا امام مالک،2/ 473،رقم:1929 Hترمذی،4/159،حدیث:2363 Iالتذکرۃ،ص19،18 Jحلیۃ الاولیاء، 2/54


Share