سلسلہ:رسم ورواج
موضوع:رخصتی (قسط2)
*بنتِ منصور عطاریہ مدنیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ:شادی کی متفرق رسموں کا بیان جاری ہے، پچھلی قسط میں رخصتی سے پہلے کی رسموں کا ذکر گزرا،اب رخصتی اور اس کے بعد کی دیگر رسموں کو ذکر کیا جائے گا:
رخصتی اور اس کے بعد کی رسومات
دلہن کی سہرا بندی:رخصتی کے وقت دلہن کے لئے پھولوں کا سہرا لایا جاتا ہے جو لڑکے والوں کی طرف سے ہوتا ہے، لڑکے والوں میں سے ہی کوئی خاتون اس سہرے کو پہلے سات شادی شدہ خواتین جو صاحبۂ اولاد ہوتی ہیں ان کے ماتھے پر لگاتی ہے، اس کو اچھا شگون مانا جاتا ہے۔بعض اس میں بھی تخصیص کر دیتی ہیں کہ جن کی پہلی اولاد لڑکا ہو ان کی پیشانی سے لگاتے ہیں،پھر دلہن کو ایک چادر اس طرح اوڑھائی جاتی ہے کہ اس کا منہ اور پورا بدن چھپ جاتا ہے اس کے اوپر سہرا باندھا جاتا ہے۔اب دلہن کے ساتھ کسی کو رہنا ہوتا ہے تاکہ اس کو سنبھالے کیونکہ اس صورت میں دلہن کو کچھ دکھائی نہیں دیتا، سہرے کے سبب مکمل طور پر دلہن چھپ جاتی ہے۔
سر پر قرآن پاک رکھنا:دلہن کے سر پر قرآن پاک رکھ کر رخصت کرنے کی رسم دلہن کے بھائی یا والد انجام دیتے ہیں۔ ایسا کرنا اگرچہ جائز اور باعثِ برکت ہے مگر اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ گانے باجے یا آتش بازی وغیرہ کی کوئی صورت نہ ہو، کیونکہ یہ ہرگز درست نہیں کہ ایک طرف قرآنِ کریم سے برکت لی جا رہی ہو اور دوسری جانب اسلامی احکامات کی ہی نافرمانی کی جا رہی ہو۔یوں تو قرآنِ کریم پاس نہ ہو اس وقت بھی ان گناہوں سے بچنا ضروری ہے مگر قرآنِ کریم کی موجودگی میں اس کی عظمت و اہمیت کے پیشِ نظر خاص طور پر گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔([1])
خیال رہے کہ قرآنِ پاک کو بے وضو نہ اٹھایا جائے، البتہ! اگر قرآنِ عظیم جُزدان میں ہو تو جزدان پر ہاتھ لگانے میں حرج نہیں،یونہی رومال وغیرہ کسی ایسے کپڑے سے پکڑنا جو نہ اپنا تابع ہو نہ قرآنِ مجید کے تو جائز ہے۔آستین یا آنچل سے یہاں تک کہ اگر چادر کا ایک کونا کندھے پر ہے تو دوسرے کونے سے قرآنِ پاک چھونا حرام ہے۔(2) ویسے آج کل جو جہیز کے لئے قرآنِ پاک ہوتے ہیں وہ خوبصورت بکس میں ہوتے ہیں تو اس بکس کو اٹھانے میں حرج نہیں۔
چاول پھینکنا:رخصتی کے وقت لڑکی والے ایک تھال میں کچے چاول رکھتے ہیں، دلہن رخصتی کے وقت دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر چاول اٹھاتی اور پیچھے کی جانب پھینکتے ہوئے آگے چلتی ہے ایسے میں یہ چاول پاؤں میں آتے ہیں اور ضائع ہو جاتے ہیں، اس سے شگون یہ لیا جاتا ہے کہ وہ اپنا اناج یہیں چھوڑ کر جا رہی ہے۔ایسا کرنا ناجائز ہے کہ اس میں اسراف ہے اور رزق پاؤں میں آتا ہے۔(3)اس رسم کے متعلق یہ مروی ہے کہ رخصتی کے وقت دلہن اپنے پاؤں سے چاول پھینکتی ہے۔بہرحال اس رسم میں چونکہ رزق کی بے حرمتی ہے اور یہ رسم غیر مسلموں سے مسلمانوں میں منتقل ہوئی ہے۔لہٰذا اس رسم سے بچنا ہی لازم و ضروری ہے۔(4)
دو بہنوں کی ایک ساتھ رخصتی:دو بہنوں کی ایک ساتھ رخصتی کرنے کے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ دو بہنوں کی ایک ساتھ رخصتی کی جائے تو ایک بہن پھلتی نہیں اور خوش نہیں رہتی، بلکہ پریشان رہتی ہے، یہ محض ایک بد شگونی ہے۔دو یا کئی بہنوں کا نکاح یا رخصتی ایک ہی دن میں کرنا شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں،یہ کہنا کہ ایسا کرنے سے ایک بہن پریشان رہے گی،محض من گھڑت بات ہے جس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ بد شگونی ہے اور بد شگونی پر یقین رکھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا گناہ ہے۔(5)
رخصتی کے وقت گلے ملنا:رخصتی کے وقت دلہن سے اس کے گھر والے اور قریبی رشتے دار گلے ملتے ہیں۔اس حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ اگر عورت عورت سے گلے ملے تو اس میں حرج نہیں جیسے والدہ اور بہنوں کا دلہن سے گلے ملنا، جبکہ ممانعت کی کوئی وجہ موجود نہ ہو، اور محارم مرد اور عورت کے گلے ملنے میں اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو حرج نہیں ورنہ اس کی اجازت نہ ہو گی اور نا محرم سے گلے ملنا تو ناجائز و حرام ہے اگرچہ شہوت کا اندیشہ نہ ہو۔(6)
پرندے آزاد کرنا:بعض جگہوں پر یہ رواج بھی دیکھا گیا ہے کہ رخصتی کے عین موقع پر جب بارات جانے لگتی ہے تو ایک جوڑا پرندے کا دولہن دولہے کے ہاتھ سے آزاد کروایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کی زندگی کی جو سختی ہو وہ دور ہو جائے۔نیز نیت یہ ہوتی ہے کہ اللہ پاک ان کو آزاد کرنے کے سبب اس جوڑے کو برکت عطا فرمائے گا اور مشکل دور فرمائے گا۔فی نفسہ پرندوں کو آزاد کرنے اور ان سے نیک شگون لینے میں کوئی حرج نہیں۔البتہ!اس بات کا خیال رہے کہ بعض جگہوں پر اس کو کاروبار بنا لیا گیا ہے کہ لوگ ان پرندوں کو آزاد کرتے ہیں اور پھر دوبارہ ان کو قید کر کے فروخت کرتے ہیں۔اب ایسی صورت میں آزاد کرنے کے لئے پرندہ خریدنا گویا مزید پرندے قید کرنے پر ابھارنا ہے تو اس سے بچا جائے۔
پالکی/ ڈولی پر دلہن کو بٹھانا:پالکی جسے ڈولی بھی کہا جاتا ہے، یہ لکڑی سے بنی ہوئی مستطیل شکل کی ایک سواری ہے جس میں دو جانب دروازہ ہوتا ہے۔اس کے آگے اور پیچھے موٹے ڈنڈے لگے ہوتے ہیں جس کی مدد سے اسے اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا ہے۔ابتدا میں یہ سواری امیروں کے لئے استعمال ہوتی تھی پھر اسے دلہن کی رخصتی کے لئے بھی استعمال کیا جانے لگا۔اس رسم سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ ہماری بیٹی یا بہن نے اپنی زندگی کے کئی سال اپنے والدین کے گھر میں باعزت طور پر گزارے ہیں آج اس کے احباب باعزت طور پر اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کر رخصت کر رہے ہیں۔اب تو گاڑی کا دور آ گیا ہے مگر بعض شوقین اب بھی ڈولی میں رخصتی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس حوالے سے علمائے اہلِ سنت فرماتے ہیں:نکاح کے بعد ماں باپ کے گھر سے دلہن کو شوہر کے گھر لے جاتے ہیں۔اسے ہمارے ہاں عرف میں رخصتی کہتے ہیں۔اسے پیدل بھی لے جا سکتے ہیں، گھوڑے یا کسی جانور پر سوار کر کے بھی اور پالکی وغیرہ میں بھی لے جاسکتے ہیں، آج کل کار وغیرہ میں بٹھا کر لے جاتے ہیں۔یہ سب طریقے درست ہیں اور اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔بس صرف اتنا لازم ہے کہ ستر و حجاب شرعی کا اہتمام کیا جائے اور اس کا بدن کسی غیرمحرم مرد سے مس نہ کرے۔دلہن کو پالکی میں بٹھا کر لے جانے کو حرام کہنا،جبکہ اس پالکی کو مرد اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوں غلط ہے۔کسی بات کو حرام قرار دینے کے لئے دلیلِ شرعی کی ضرورت ہوتی ہے،خود شارع نہیں بننا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں اگر پالکی پر بٹھانا ثابت نہیں ہے تو کاروں پر بھی لے کر جانا کہاں سے ثابت ہے؟کیا یہ بھی حرام ہو جائے گا؟(7)لہٰذا پالکی میں رخصتی تو جائز ہے مگر خیال رہے کہ اس میں دیگر خرافات شامل نہ ہوں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* دفتر ذمہ دار پاک سطح، شعبہ حج و عمرہ کراچی
Comments