سلسلہ:شرحِ حدیث
موضوع:فال کی حقیقت
*بِنتِ کریم عطاریہ مدنیہ
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:بد فالی کوئی چیز نہیں اور فال اچھی چیز ہے۔لوگوں نے عرض کی:فال کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا:اچھا کلمہ جو تم میں سے کوئی سنے۔([1]) کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا برا سمجھنے کو فال کہتے ہیں۔([2]) نیک فال یا اچھا شگون لینا یعنی کسی چیز کو اپنے لئے باعثِ خیر و برکت سمجھنا مستحب ہے، مثلاً بزرگانِ دین کی زیارت ہونا ،بدھ کے دن نیا سبق شروع کرنا، پیر اور جمعرات کو سفر شروع کرنا۔ہمارے مکی مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نیک فال لینا پسند تھا۔نیک فال صرف کسی اچھی بات، نیک انسان کی زیارت یا بابرکت ایام مثلاً ایامِ عید، پیر شریف وغیرہ سے لے سکتے ہیں۔ فال ایک قسم کا استخارہ ہے،استخارے کی اصل احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔مگر فی زمانہ فال نکالنے کے کئی طریقے مختلف کتب وغیرہ بالخصوص جنتریوں وغیرہ میں ملتے ہیں جنہیں فالنامہ کہا جاتا ہے،یہ فالنامے جو عوام میں مشہور اور اکابِر کی طرف منسوب ہیں(مثلاً فالنامہ سلیمانی، فالنامہ پنجتنِ پاک،فالنامہ قلندری، قرآنی فالنامہ وغیرہ، یہ سب)بے اصل و باطل ہیں۔([3]) کیونکہ جو لوگ اس طرح کے فالناموں وغیرہ سے فال نکال کر اپنی قسمت اور اپنے حق میں کسی کام کے اچھا یا برا ہونے کا یقین کر لیتے ہیں ان کا اللہ پاک پر یقین اور اعتماد کمزور ہو جاتا ہے، تقدیر پر بھی ایمان کمزور ہو جاتا اور اللہ پاک کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے، شیطانی وسوسوں کا دروازہ کھلتا ہے، انسان اسی فال کے جواب کو سب کچھ سمجھ کر کامیابی حاصل کرنے کی کوششیں چھوڑ دیتا ہے، یونہی ناکام ہونے کی صورت میں اس کے اسباب و وجوہات پر غور کرنے کے بجائے یہی سمجھتا ہے کہ قسمت میں یہی لکھا تھا۔
فال نکالنا شیطانی کام ہے:فال نکالنا شیطانی کام ہے۔زمانہ جاہلیت میں کفار بھی مختلف طریقوں سے فال نکالا کرتے تھے مثلاً تیروں سے فال نکالنا، پرندے کو اڑا کر ان کے ذریعے فال نکالنا وغیرہ۔ اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں ان کے ایسا کرنے کو شیطانی کام قرار دیا اور ارشاد فرمایا
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۹۰) (پ7،المائدۃ:90)
ترجمہ:اے ایمان والو!شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا
وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِؕ-ذٰلِكُمْ فِسْقٌؕ- (پ6،المائدۃ:3)
ترجمہ:اور(حرام ہے) کہ پانسے ڈال کرقسمت معلوم کرو یہ گناہ کا کام ہے۔
تفسیر خزائن العرفان میں ہے:زمانہ جاہلیت کے لوگوں کو جب سفر یا جنگ یا تجارت یا نکاح وغیرہ کام در پیش ہوتے تو وہ تین تیروں سے پانسے ڈالتے اور جو نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے اور اس کو حکمِ الٰہی جانتے ، ان سب کی ممانعت فرمائی گئی۔([4]) ان تین تیروں میں سے ایک پر لکھا ہوتا:اَمَرَنِی رَبِّی (یعنی مجھے میرے رب نے حکم دیا) دوسرے پر نَہَانِی رَبِّی(یعنی مجھے میرے رب نے روکا)اور تیسرے تیر پر کچھ نہ لکھا ہوتا۔اگر پہلا تیر نکلتا تو وہ کام کرلیا کرتے ،اگر دوسرا نکلتا تو اس کام سے رُک جاتے اور اگر تیسرا نکلتا تو پھر پانسے ڈالتے۔ان تیروں اور اس طرح کی دوسری چیزوں کا استعمال جائز نہیں۔([5])
پرندوں سے فال کیسے نکالتے تھے؟زمانۂ جاہلیت میں مشرکین پرندوں پر اعتماد کرتے تھے، جب ان میں سے کوئی شخص کسی کام کے لئے نکلتا تو وہ پرندے کی طرف دیکھتا اگر وہ پرندہ سیدھی طرف اڑتا تو وہ اس سے نیک شگون لیتا اور اپنے کام پر روانہ ہو جاتا اور اگر وہ پرندہ الٹی جانب اڑتا تو وہ اس سے بد شگونی لیتا اور لوٹ آتا۔بعض اوقات وہ کسی مہم پر روانہ ہونے سے پہلے خود پرندے کو اڑاتے تھے، پھر جس جانب وہ اڑتا تھا اس پر اعتماد کر کے اس کے مطابق مہم پر روانہ ہوتے یا رک جاتے۔چنانچہ اسلام نے ان کو اس طریقے سے روک دیا۔([6]) جیسا کہ حضرت ابو بُردہ رحمۃ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں:میں اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:مجھے کوئی ایسی حدیث بیان کیجیے جو آپ نے حضور سے خود سنی ہو،تو اُمُّ المومنین نے حضور کا یہ فرمان سنایا کہ پرندہ تقدیر کے مطابق اڑتا ہے۔([7])معلوم ہوا کہ پرندے تقدیر کے مطابق ہی اڑتے ہیں، ان سے کسی قسم کا شگون لینا جائز نہیں، یعنی پرندوں اور جانوروں سے جس طرح برا شگون لینا منع ہے مثلاً یہ سمجھنا کہ کالی بلی نے راستہ کاٹ لیا تو اب یہ کام نہیں ہو گا وغیرہ،اسی طرح نیک فال لینے کی بھی اجازت نہیں ہے۔اس کی وجہ امام محمد رازی رحمۃ اللہِ علیہ نے کچھ یوں بیان فرمائی ہے: انسانی روح درندوں اور پرندوں کی روحوں سے زیادہ صاف اور طاقتور ہوتی ہے۔لہٰذا انسان کی زبان پر جاری ہونے والے کلمے سے استدلال کرنا(فال لینا) ممکن ہے، لیکن پرندوں کے اڑنے یا درندوں کی کسی حرکت سے کسی بات پر استدلال کرنا (یعنی اچھا یا برا شگون لینا)ممکن نہیں کیونکہ ان کی روحیں کمزور ہوتی ہیں۔([8])
نیک فالی اور بد فالی میں فرق:بد فالی لینا شرعاً منع ہے جب کہ نیک فالی جائز و مستحب ہے۔بد فالی لینا کفار کا طریقہ ہے جبکہ نیک فالی سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا طریقہ ہے۔بد فالی لینے سے نا امیدی اور سستی پیدا ہوتی ہے جبکہ نیک فال لینے سے اللہ پاک کی رحمت سے امید بڑھتی ہے۔بد فالی انسان کو ناکامی و نامرادی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ نیک فالی کامیابی اور ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔
فال کھولنا کیسا؟مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہِ علیہ تفسیرِ نعیمی میں لکھتے ہیں:فال کھولنا یا فال کھولنے پر اُجرت لینا یا دینا سب حرام ہے۔([9]) جبکہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جو شخص فال کھولتا ہو لوگوں کو کہتا ہو کہ تمہارا کام ہو جائے گا یا یہ کام تمہارے واسطے اچھا ہو گا یا برا ہو گا یا اس میں نفع ہو گا یا نقصان؟تو اعلیٰ حضرت نے جواب دیا:اگر یہ احکام قطع و یقین کے ساتھ لگاتا ہو جب تو وہ مسلمان ہی نہیں، اس کی تصدیق کرنے والے کو صحیح حدیث میں فرمایا: فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّد یعنی اس نے اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد پر اتاری گئی اور اگر یقین نہیں کرتا جب بھی عام طور پر جو فال دیکھنا رائج ہے معصیت سے خالی نہیں۔([10])
فال نکالنے کے چند طریقے
قرآنِ پاک سے فال نکالنا:بعض لوگ گمشدہ چیز یا چوری شدہ مال کے متعلق معلومات کرنے کے لئے یٰسٓ شریف یا قرآنِ پاک کی کسی اور سورت سے چور کا نام نکالتے ہیں، یہ طریقے نا پسندیدہ اور نقصان دہ ہیں اور ان سے جس کا نام نکلے اسے چور سمجھ لینا حرام ہے۔نیز بعض لوگ قرآنِ مجید کا کوئی بھی صفحہ کھول کر سب سے پہلی آیت کے ترجمے سے اپنے کام کے بارے میں خود ساختہ مفہوم نکال کر فال نکالتے ہیں،بریقہ محمودیہ میں قرآنِ پاک سے فال نکالنے کو مکروہِ تحریمی قرار دیا گیا ہے۔([11]) جبکہ حدیقہ ندیہ میں ہے:قرآنی فال، فالِ دانیال اور اس طرح کی دیگر فال جو فی زمانہ نکالی جاتی ہیں نیک فالی میں نہیں آتیں بلکہ ان کا بھی وہی حکم ہے جو پانسوں کے تیروں کا ہے لہٰذا یہ ناجائز ہیں۔([12]) اس حوالے سے ایک عبرت ناک حکایت بھی منقول ہے کہ ایک دن ولید بن یزید بن عبدُ الملک نے قرآنِ پاک سے فال نکالی تو جیسے ہی قرآنِ پاک کھولا تو یہ آیت نکلی
وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍۙ(۱۵) (پ13،ابراہیم:15)
ترجمہ:اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور ہر سرکش ہٹ دھرم نا کام ہو گیا۔
تو ولید بن یزید نے قرآنِ پاک کو( معاذ اللہ) شہید کر دیا اور اس مفہوم کے اشعار پڑھے:کیا تو ہر سرکش و ہٹ دھرم کو دھمکی دیتا ہے (معاذ اللہ)، ہاں! میں ہوں وہ سرکش و ہٹ دھرم، جب تو قیامت کے دن اپنے رب کے پاس حاضر ہو تو کہہ دینا مجھے ولید نے شہید کیا تھا۔اس سانحے کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد کسی نے ولید کو بے دردی سے قتل کر دیا، اس کے سر کو پہلے اس کے محل، پھر شہر کی دیواروں پر لٹکا دیا گیا۔([13])
زائچہ بنوانا:اپنی قسمت کا حال وغیرہ معلوم کرنے کے لئے زائچہ بنوانا مثلاً میرے ساتھ کیا ہو گا؟یہ کام میرے لئے بہتر ہے یا نہیں؟یہ بھی جائز نہیں،کیونکہ یہ ایک قسم کا آسمانی عکس یا نقشہ ہوتا ہے جس میں دئیے گئے وقت اور مقام کے حوالے سے سورج، چاند اور سیاروں کی بارہ بروج میں پوزیشن دی ہوتی ہے۔زائچے کی کئی اقسام اور کئی شکلیں ہوتی ہیں۔یہ بھی در حقیقت ایک طرح کا فال نکالنا ہی ہے اور اس طرح کے زائچوں کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان سے مال بٹورنے کا ایک طریقہ بن چکا ہے۔ ایک ملک کی وزیر اعظم کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ روزانہ گھر سے نکلنے سے پہلے نجومیوں سے مشورہ کرتی اور زائچہ وغیرہ بنواتی تھی لیکن جس دن موت لکھی ہوئی تھی وہ گھر سے نکلتے ہی اپنے باڈی گارڈز کی گولیوں کا نشانہ بن گئی۔
قسمت کا حال بتانے والی جنتریاں
جس کتاب میں نظام سالانہ کی تاریخ وغیرہ کی تعیین کی گئی ہو یعنی وقت کو سیکنڈوں،منٹوں، گھنٹوں،دنوں،ہفتوں،مہینوں، فصلوں، سالوں اور صدیوں (بعض ممالک اور زبانوں میں ہزاری) میں ترتیب دیا گیا ہو اسے جنتری کہا جاتا ہے یا پھر جن کتابوں میں نجومی ستاروں کی گردش کا سالانہ حال تاریخ وار درج کرتے ہیں۔([14]) انہیں بھی جنتری ہی کہا جاتا ہے۔
جنتری اصل میں تو کیلنڈر کا ہی دوسرا نام ہے جو دنوں، ہفتوں،مہینوں،سالوں وغیرہ کے حساب پر مشتمل ہوتی ہے لیکن آج کل بازار میں جنتری کے نام سے مختلف طرح کے جو کتابچے ملتے ہیں ان میں بہت سی بے اصل اور بے بنیاد چیزیں بھی ہوتی ہیں۔مثلاً قسمت کا حال معلوم کریں، خوابوں کی تعبیریں، اپنا ستارہ معلوم کریں، کون سے ستارے والے کے لئے کون سی چیز مناسب ہے؟کون سا دن کس کام کے لئے مناسب رہے گا؟یہ سال آپ کے لئے کیسا رہے گا؟اس کے علاوہ مختلف قسم کے فالنامے اور زائچے وغیرہ بھی ان میں موجود ہوتے ہیں۔ان فالناموں اور زائچوں وغیرہ کے باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اکثر ان کے جوابات مثبت اور دل کو خوش کرنے والے ہی ہوتے ہیں۔
نئے سال کا آغاز ہونے سے پہلے ہی اس طرح کی جنتریاں دکانوں پہ آ جاتی ہیں اور بہت سے لوگ ان کو خریدتے اور ان کے ذریعے اپنی قسمت کا حال معلوم کرتے ہیں۔حالانکہ ان میں اکثر باتیں جھوٹی اور بے اصل ہوتی ہیں،لہٰذا ان کو خریدنے اور ان میں درج باتوں پر یقین کرنے سے بچنا چاہیے۔
بعض جنتریوں میں نماز کے اوقات وغیرہ کی بھی معلومات موجود ہوتی ہے، حالانکہ احتیاط اسی میں ہے کہ اوقاتِ نماز مستند نقشہ جات وغیرہ سے ہی دیکھے جائیں۔جیسا کہ عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے شعبہ فلکیات کے تیار کردہ ملک کے تقریباً تمام شہروں اور کئی بیرون ممالک کے لئے نقشہ اوقاتِ نماز دستیاب ہیں جن کو مکتبۃ المدینہ سے ہدیۃً حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ دعوتِ اسلامی کی ایپ Prayer times بھی ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز خوشبوئے عطار واہ کینٹ
[1]بخاری،4/36،حدیث:5754
[2] بدشگونی،ص10
[3] فتاویٰ رضویہ،23/397ماخوذاً
[4] تفسیر خزائن العرفان،ص207
[5] بریقہ محمودیہ،الجزء الثانی،ص385
[6] فتح الباری،11/180
[7] مسند امام احمد،41/448،حدیث:25982
[8] تفسیر کبیر،5/344
[9] تفسیر نور العرفان،ص194
[10] فتاویٰ رضویہ،23/100ملتقطاً
[11] بریقہ محمودیہ،الجزء الثانی،ص386
[12] حدیقہ ندیہ،2/26
[13] ادب الدنیا و الدین ، ص 276،277
[14] بہار شریعت،1/63 ،حصہ:1
Comments