سلسلہ:تفسیرِ قرآنِ کریم
موضوع:مردے سنتے ہیں
*اُمِّ حبیبہ عطاریہ مدنیہ
اللہ پاک کا فرمان ہے:
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ(۸۰) (پ20،النمل:80)
ترجمہ:بیشک تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ تم بہروں کو پکار سنا سکتے ہو جب وہ پیٹھ دے کر پھر رہے ہوں۔
تفسیر
ابو البرکات عبد الله بن احمد نسفی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت میں کفار کو زندہ ہونے اور حواس درست ہونے کے باوجود مُردوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔([1]) بعض حضرات اس آیت سے یہ اِستدلال کرتے ہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔ حالانکہ یہ غلط ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کفار کو مردہ فرمایا گیا ہے اور ان سے بھی مطلقاً ہر کلام سننے کی نفی مراد نہیں بلکہ وعظ و نصیحت اور کلامِ ہدایت قبول کرنے کے لئے سننے کی نفی ہے اور مراد یہ ہے کہ کافر مردہ دل ہیں کہ نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔([2])
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:نفیِ سماع ہی مانو تو یہاں سے سماع قطعاً بمعنی سمعِ قبول و انتفاع ہے۔باپ اپنے عاقل بیٹے کو ہزار بار کہتا ہے:وہ میری نہیں سنتا۔کسی عاقل کے نزدیک اس کے یہ معنی نہیں کہ حقیقۃً کان تک آواز نہیں جاتی، بلکہ صاف یہی کہ سنتا تو ہے، مانتا نہیں اور سننے سے اسے نفع (فائدہ) نہیں ہوتا،آیۂ کریمہ میں اسی معنی کے ارادہ پر ہدایت شاہد کہ کفار سے انتفاع ہی کا انتفا ہے نہ کہ اصلِ سماع کا۔خود اسی آیہ کریمہ
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى
کے تتمہ میں ارشاد فرماتا ہے :
اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۸۱) (پ20، النمل: 81)
ترجمہ:تم نہیں سناتے مگر انھیں جو ہماری آیتوں پریقین رکھتے ہیں تو وہ فرمانبردار ہیں۔
اور پر ظاہر کہ وعظ و نصیحت سے نفع حاصل کرنے کا وقت یہی دنیا کی زندگی ہے۔مرنے کے بعد نہ کچھ ماننے سے فائدہ نہ سننے سے حاصل، قیامت کے دن سبھی کافر ایمان لے آئیں گے، پھر اس سے کیا کام! تو حاصل یہ ہوا کہ جس طرح اموات(مُردوں)کو وعظ سے کوئی فائدہ نہیں، یہی حال کافروں کا ہے کہ لاکھ سمجھائیے نہیں مانتے۔([3])
ثابت ہوا کہ مذکورہ آیت سے مردوں کا سننا مراد نہیں، بلکہ مردہ دل کفار مراد ہیں، کیونکہ ایک طرح سے مُردوں کا سننا تو خود قرآنِ کریم سے بھی ثابت ہے،جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق مذکور ہے کہ انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی تھی:یااللہ! مجھے یقین ہے کہ تو مُردوں کو زندہ فرمائے گا لیکن میں یہ منظر دیکھنا چاہتا ہوں۔ارشاد ہوا:چار پرندے پالو، پھر ان کو ذبح کرو، قیمہ بنا دو، پھر پہاڑ پر کھڑے ہو کر ان کو پکارو وہ پرندے زندہ ہو کر تمہارے پاس آجائیں گے۔آپ نے یہ سب کیا تو پرندے واقعی زندہ ہو کر آپ کے پاس آ گئے۔([4]) یہ حکایت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مرنے کے بعد مردے سنتے بھی ہیں جبھی تو ان مردہ پرندوں کو پکارنے کا حکم دیا گیا۔([5]) بلکہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:بعد مرنے کے سمع، بصر،ادراک(دیکھنا،سننا،سمجھنا)عام لوگوں کا یہاں تک کہ کفار کا زائد ہو جاتا ہے اور یہ تمام اہلِ سنت و جماعت کا اجماعی عقیدہ ہے۔([6])
نیز کثیر احادیث سے مردوں کا سننا بھی ثابت ہے، مثلاً غزوۂ بدر کے موقع پر کفار کی لاشیں کنویں میں ڈال دی گئی تھیں،حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور ان کفار کوپکارا:اے فلاں بن فلاں!اور اے فلاں بن فلاں! کیا تم نے اللہ پاک اور اس کے رسول کے وعدے کو سچا پایا؟ بے شک میں نے تو اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا۔اس پر حضرت عمر نے عرض کی:یا رسولَ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! آپ ایسے جسموں سے کیسے کلام کر رہے ہیں کہ جن میں روحیں نہیں؟ ارشاد فرمایا:یہ اس گفتگو کو تم سے زیادہ سنتے ہیں لیکن انہیں یہ طاقت نہیں کہ مجھے پلٹ کر جواب دیں۔([7])
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی مروی ہے کہ ان کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جہاں انسان اور چرند پرند وغیرہ کوئی بھی زندہ نہ تھا، آپ کچھ دیر کھڑے رہے، پھر اپنے حواریوں سے ارشاد فرمایا:یہ سب اللہ پاک کے عذاب سے ہلاک ہوئے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک ساتھ نہ مرتے۔پھر آپ نے ان مردوں کو جب اے بستی والو! کہہ کر پکارا تو ان میں سے ایک نے جواب دیا:لَبّیکْ یَا رُوْحَ اللہ!( [8])اس سے بھی معلوم ہوا کہ مردے سنتے ہیں اسی لئے انہوں نے جواب میں لبیک کہا۔نیز ایک روایت میں ہے:جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اسے دفن کر کے پلٹتے ہیں تو یقیناً وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔([9]) اسی طرح ایک روایت میں ہے:جب جنازہ رکھا جاتا ہے اور مرد اسے اپنی گردنوں پر اٹھا تے ہیں، اگر نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے:مجھے آگے بڑھاؤ! اور اگر بُرا ہوتا ہے تو کہتا ہے:ہائے خرابی! کہاں لئے جاتے ہو؟انسان کے علاوہ ہر چیز اس کی آواز سنتی ہے، اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے۔([10])
نیز یہی وجہ ہے کہ حضرت علامہ مولانا حَسن بن عمّار شُرُنْبُلَالِیْ حنفی رحمۃ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:مجھ کو میرے استاذ علامہ محمد بن احمد حنفی رحمۃ اللہِ علیہ نے بتایا کہ جوتے کی آواز سے مردے کو تکلیف ہوتی ہے۔([11]) بلکہ حضرت قاسم بن مُخَیْمَر رحمۃ اللہِ علیہ کہتے ہیں: کسی شخص نے ایک قبر پر پاؤں رکھا، قبر سے آواز آئی: اے شخص! مجھ سے دور ہو! مجھے تکلیف نہ دے۔([12])
یاد رکھیے! مردے سنتے ہیں بلکہ ان میں سننے کی صلاحیت چاہے وہ مومن ہو یا کافر مرنے کے بعد بڑھ جاتی ہے کیونکہ دنیا کا معمول تو یہ ہوتاکہ بندہ کام کاج اور دنیاوی سوچوں میں مشغول ہوتا ہے، اس لئے کسی کی بات بعض اوقات توجہ سے سن نہیں پاتا۔جو انسان مرجاتا ہے اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے، اس لئے مُردہ قبر میں آنے والے تمام انسانوں کی آوازوں کو سنتا اور پہچانتا ہے۔جب عام مومن اور کافر کا یہ حال ہے کہ اس کا ادراک بڑھ جاتا ہے تو انبیائے کرام اور اولیائے کرام کہ جو اپنی قبروں میں زندہ ہیں وہ تو بدرجۂ اَولی پکارنے والے کی پکار سننے والے ہیں اور مجبور و بے بس کی فریاد کو پہنچنے والے ہیں۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں ہے کہ مردے نہیں سنتے، ان کے اپنے عقائد ڈانواں ڈول ہیں اور وہ آیاتِ قرآنیہ کی غلط تاویلیں بیان کرتے ہیں۔فقہ کے اصولوں میں پہلا اصول قرآنِ پاک ہے۔اگر قرآنِ پاک سے کسی مسئلے کی وضاحت نہ ملے تو حدیثِ مبارک کی طرف رجوع کا حکم ہے اور کئی احادیث میں مردوں کے سننے کا واضح ذکر موجود ہے۔ اب قرآن میں جہاں پر مُردوں کے نہ سننے کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ کفار زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہیں اور نصیحت قبول کرنے کے لحاظ سے بے جان ہیں ورنہ سنتے تو ہیں مگر ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔مردے سنتے ہیں یا نہیں اس متعلق فتاویٰ رضویہ جلد 9 کو پڑھنا مفید ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں عقائد کی مضبوطی و درستی کی نعمت سے سرفراز فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز فیضانِ اُمِّ عطار گلبہار سیالکوٹ
[1]تفسیر نسفی،ص 856
[2] تفسیر صراط الجنان،7/236ملخصاً
[3] فتاویٰ رضویہ،9/701
[4] تفسیر قرطبی، 2/228،جزء:3
[5] ٹینشن کا علاج،ص12،11
[6] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص363
[7] مسلم،ص1176،حدیث:7222
[8] حلیۃ الاولیاء،4/ 64،رقم:4762
[9] بخاری،1/450،حدیث:1338
[10] بخاری،1/444،حدیث:1314
[11] مراقی الفلاح، ص152
[12] شرحُ الصدور، ص301
Comments