سلسلہ: ازواجِ انبیا
موضوع: حضرت عائشہ کے اعلیٰ اوصاف(آٹھویں اور آخری قسط)
شعبہ ماہنامہ خواتین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ:اُمُّ المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اعلیٰ اوصاف کا ذکرِ خیر جاری ہے۔اسی سلسلے کی 8ویں اور آخری قسط پیشِ خدمت ہے:
سیدہ عائشہ اور شوہر کی خدمت
اُمُّ المومنین وہ عظیم خاتون ہیں کہ جنہوں نے اپنی ہر ہر ادا سے اپنے شوہرِ نامدار کو زندگی کے ہر موڑ پر اپنائیت کا احساس دلایا، شوہر کی اطاعت و فرمان برداری کو اپنا شعار بنایا اور دینی و دنیاوی معاملات میں بے مثال بیوی کے طور پر خود کو پیش کیا۔ ہجرت کا موقع ہو یا جنگی تیاریاں، مہمانوں کی خدمت ہو یا حضور کے شب و روز کے دیگر معاملات کی دیکھ بھال، آپ نے اپنے شوہر نامدار،نبیوں کے تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کا کوئی موقع بھی ضائع نہ کیا۔ چنانچہ آپ کی زندگی سے بطورِ زوجہ شوہر کی خدمت کی چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں:
زادِ سفر کی تیاری: حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ کے ساتھ جب ہجرت کی تو اس وقت سیدہ عائشہ کا نکاح اگرچہ حضور سے ہو چکا تھا مگر ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی، چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق اس موقع پر سیدہ عائشہ نے اپنے والد اور شوہر دونوں کے زادِ سفر تیار کرنے کی سعادت حاصل کی اور ان سے جو ہو سکا شوق و وارفتگی میں فوری تیار کر کے چمڑے کی ایک تھیلی میں رکھ دیا۔([1])پھر رخصتی کے بعد مدینہ شریف میں بھی سیدہ عائشہ کا یہ معمول رہا کہ حضور جب کسی سفر پر روانہ ہونے لگتے تو یہ زادِ سفر کے علاوہ حضور کی دیگر ضروریات کا بھی خاص خیال رکھا کرتیں،مثلاً ایک بار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ جنگی ہتھیاروں کو نکال رہی ہیں تو آپ نے پوچھا: کیا حضور نے حکم دیا ہے؟ عرض کی: جی ہاں۔ پھر آپ نے پوچھا: کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ تو عرض کی: اللہ پاک کی قسم! مجھے معلوم نہیں۔([2]) یعنی سیدہ عائشہ کو واقعی معلوم نہ تھا کہ حضور کہاں کا ارادہ فرما رہے ہیں، لہٰذا آپ نے قسم اٹھا کر اپنے والد سے عرض کی کہ مجھے معلوم نہیں، لیکن اگر معلوم بھی ہوتا تو آپ کبھی حضور کے راز سے آگاہ نہ فرماتیں، کیونکہ آپ کی ذات میں ایک خوبصورت خوبی یہ بھی تھی کہ آپ کا سینہ رازوں کا دفینہ تھا اور آپ اپنے شوہر یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے رازوں کی امین تھیں۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ حضور کی فتحِ مکہ کے لیے روانگی کی غرض سے زادِ سفر تیار کر رہی تھیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ تشریف لے آئے اور سیدہ عائشہ کو دیکھ کر پوچھا:اے بیٹی!تم یہ کھانے کا سامان کیوں تیار کر رہی ہو؟ حضور نے سیدہ عائشہ کو چونکہ کسی کو کچھ بھی بتانے سے منع فرمایا تھا، لہٰذا آپ نے کوئی خاص جواب نہ دیا تو صدیق اکبر نے پھر پوچھا: کیا حضور غزوے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اس پر بھی سیدہ عائشہ نے خاموشی میں ہی عافیت جانی اور ہاں میں جواب دیا نہ نا میں،آپ کے والد گرامی نے یوں بار بار پوچھنے پر بھی جب اپنی بیٹی کی مسلسل خاموشی دیکھی تو سمجھ گئے کہ یہ میری ہی بیٹی ہے جو اللہ پاک کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا راز کبھی ظاہر نہ کرے گی۔لہٰذا وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور نے خود انہیں سب کچھ بتایا ۔([3])
رازدانِ مصطفےٰ، محبوبہ محبوبِ خدا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس پاکیزہ اور لائقِ تقلید عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہر عورت کو جائزہ لینا چاہیے کہ شوہر کے راز ظاہر یا پوشیدہ رکھنے کے تعلق سے اس کا کردار کیسا ہے۔ کیونکہ بعض نادان خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن کے پیٹ میں کوئی بات رکتی ہی نہیں، یوں کہ جب وہ میکے جاتی ہیں یا اپنی سہیلیوں، رشتہ داروں یا پڑوسنوں وغیرہ سے ملتی ہیں تو ان کے سامنے اپنے شوہر کے کئی ایسے راز مثلاً آمدنی، خرچ، جائیداد، مالی معاملات، حال یا مستقبل کی پلاننگ، پچھلی زندگی کے پوشیدہ معاملات وغیرہ ظاہر کر دیتی ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا اس کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے، حالانکہ شوہر تو اپنی بیوی پر اندھا اعتماد کر کے اسے ان چیزوں کے متعلق بتاتا ہے مگر وہ نادان اپنے شوہر کے راز ظاہر کر کے نہ صرف خیانت کرتی ہے بلکہ شوہر کی نظر میں اپنا مقام بھی کھو دیتی اور اس کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچاتی ہے۔ جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: خیانت صرف مال کی ہی نہیں ہوتی بلکہ مال، راز اور عصمت وغیرہ سب میں ہوتی ہے بلکہ مال میں خیانت سے بدر جہا بد تر (یعنی کہیں زیادہ بری)راز داری میں خیانت ہے۔([4]) لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کے رازوں کی حفاظت کرنا سیکھیں اور کسی پر بھی ظاہر نہ کریں۔
نیز سیدہ عائشہ کی سیرت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ بطورِ زوجہ گھر کے کام کاج کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتیں، بلکہ حضور کی ضروریات کا خوب خیال رکھتیں، مثلاً آپ اچھی طرح جانتی تھیں کہ حضور کو نبیذ یعنی کھجور کا شربت پسند ہے، چنانچہ مسلم شریف میں ہے کہ آپ حضور کے لیے ایک مشکیزے میں تازہ نبیذ بنایا کرتیں، صبح بناتیں تو حضور شام کو پیتے اور شام کو بناتیں تو حضور صبح کو پیتے۔([5]) نیز حضور کے لئے ہی نہیں بلکہ آپ کے ہاں اچانک آنے والے مہمانوں کے لئے بھی کھانے کا اہتمام کرتیں اور کبھی آپ کے ماتھے پر شکن نہ آئی۔ جیسا کہ حضرت یعیش بن طِخْفَہ بن قیس غفاری رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن چند اصحابِ صفہ کے ساتھ حضور گھر تشریف لائے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے عائشہ! ہم کو کچھ کھلاؤ۔ وہ چونی(یعنی دال کے برادہ )کا پکا ہوا کھانا لائیں۔ وہ کھا لیا گیا تو حضور نے مزید کچھ لانے کا فرمایا۔ چنانچِہ آپ قَطاۃ (چھوٹے سے پرندے)کی مثل حِیْسَہ (کھجور، پنیر یا ستو اور گھی سے تیار کیا ہوا کھانا) لے کر آئیں، وہ بھی کھا لیا گیا تو حضور نے مزید کچھ کھانے کو لانے کا فرمایا تو آپ نے ایک بڑے پیالے میں دودھ حاضر کیا، وہ بھی ختم ہو گیا تو مزید حضور کے فرمان پر آپ ایک اور چھوٹا سا پیالہ لے کر آئیں۔ ([6])یعنی حضور کے فرمان پر گھر میں جو کچھ بھی تھا سب مہمانوں کے سامنے پیش کرتی گئیں اور اس معاملے میں ذرہ بھر دیر فرمائی نہ برا مانا۔ مگر افسوس! فی زمانہ بعض خواتین گھر کے کام کاج وغیرہ کو ہی معیوب جانتی ہیں، چہ جائیکہ گھر پر آنے والے مہمانوں کی انہیں مہمان نوازی کرنا پڑ جائے تو یہ راگ الاپتی دکھائی دیتی ہیں کہ شریعت نے جب ہم پر شوہر کا کھانا پکانا لازم نہیں کیا تو مہمانوں کا کیوں بنائیں۔ چنانچہ ان کو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر شریعت نے آپ پر یہ لازم نہیں کیا تو مرد پر بھی کئی ایسی باتیں لازم نہیں جن کا آپ ان سے مطالبہ کرتی ہیں مثلاً آپ بیمار ہو جائیں تو علاج معالجہ وغیرہ مرد کی ذمہ داری نہیں اور اگر آپ واقعی شریعت کی اتنی ہی پابندی کرتی ہیں تو مرد کو شریعت نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے تو بتائیے پھر آپ کب اپنے شوہر کو خوشی سے چار شادیوں کی اجازت دے رہی ہیں!!!!!!
یاد رکھئے! ہر کام ضروری نہیں کہ شریعت کی طرف سے ہی ہم پر لازم کیا گیا ہو تو ہم کریں گی حالانکہ کچھ چیزیں اخلاقی ذمہ داریوں کے تحت بھی آتی ہیں۔ بلکہ عورت کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ اگر شوہر غریب ہو اور گھریلو کام کاج کے لئے خادمہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو اپنے گھر کا گھریلو کام کاج خود کر لیا کرے، اس میں ہر گز ہرگز نہ عورت کی کوئی ذلت ہے نہ شرم۔بلاشبہ حضور کی تمام مقدس بیویوں رضی اللہُ عنہن اور لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دیگر کئی صحابیات کے متعلق مروی ہے کہ وہ اپنے گھر کا کام کاج خود کیا کرتی تھیں۔جیسا کہ سیدہ عائشہ کے متعلق مروی ہے کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے کپڑے بھی دھویا کرتی تھیں، مثلاً ایک بار حضور صبح کی نماز پڑھا کر تشریف فرما ہوئے تو کسی شخص نے توجہ دلائی کہ چادر پر کچھ داغ ہے تو حضور نے وہ کپڑا غلام کے ہاتھ سیدہ عائشہ کے پاس بھیج دیا اور فرمایا کہ اسے دھو کر اور خشک کر کے بھیج دیں۔چنانچِہ سیدہ عائشہ نے فوراً اس چادر کو دھویا،پھر خشک کر کے حضور کی طرف بھیج دیا اور جب حضور واپس گھر تشریف لائے تو وہی چادر آپ اوپر لئے ہوئے تھے۔([7])
اچھا یہ تو وہ کام تھے جو عام طور پر عورتیں ہی کرتی ہیں، مگر سیدہ عائشہ کے متعلق یہاں تک مروی ہے کہ آپ حضور کے وہ کام بھی شوق سے کرتیں جو عام طور پر مردوں کے کرنے والے ہوتے ہیں۔جیسا کہ ایک مرتبہ قربانی کے موقع پر حضور کی بھرپور مدد فرمائی اور حضور جو کچھ فرماتے جاتے یہ بھاگ کر اس پر عمل کرتی جاتیں۔([8])چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ان خواتین کو درس حاصل کرنا چاہیے جو اپنے شوہر کے وہ کام جن میں وہ ان کے ساتھ تعاون کر سکتی ہیں لیکن نہیں کرتیں اور یہ کہتی ہیں کہ اپنا کام خود کرنا سنت ہے یا پھر کوئی اور بہانا بنا کر کام سے جان چراتی ہیں، پھر شکوہ بھی کرتی ہیں کہ میرے شوہر کسی کام میں میری مدد نہیں کرتے۔ایسی خواتین کو چاہیے کہ وہ اُمُّ المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کو بغور پڑھیں اور اس کے مطابق عمل بھی کریں ان شاء اللہ خوب خوب برکتیں ملیں گی۔
سیدہ عائشہ محبوبۂ محبوبِ خدا تھیں تو یقیناً اس کی وجوہات بھی ہوں گی اور اس مقام کو پانے میں آپ کا اپنا کردار بھی ہو گا،لہٰذا جب اس حوالے سے سیدہ عائشہ کے بطورِ زوجہ معمولات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضور کی زیب و زینت اور پسند و ناپسند کا خوب خیال رکھا کرتیں، مثلاً حضور کو خوشبو پسند تھی۔([9]) لہٰذا حضور کی اس پسند کا بطور خاص اہتمام کرتیں اور حضور کو خوش کرنے کے لئے سب سے عمدہ خوشبو حضور کو لگایا کرتیں ۔([10]) مسلم شریف کی روایت کے مطابق حضور جب اعتکاف کرتے تو مسجِد میں رہتے ہوئے اپنا سر اپنے حجرے کی طرف جھکا دیتے اور سیدہ عائشہ کنگھی کر دیتیں۔([11]) یوں ہی ابو داود شریف کی روایت کے مطابق جب آپ حضور کے سر میں مانگ نکالنے کا ارادہ کرتیں تو حضور کی مانگ(درمیان)سر سے چیرتیں اور پیشانی کے بال دو آنکھوں کے درمیان چھوڑ دیتیں۔([12]) مطلب یہ ہے کہ حضور کے بال شریف کے دو حصے کرتیں، ایک حصّہ داہنی جانب دوسرا حصہ بائیں جانب اور پیشانی کے اوپر سے یہ مانگ شروع کرتیں اور سر مبارک سے اسے گزارتیں، پوری مانگ بیچ سر میں ہوتی تھی۔([13])
الغرض ام المومنین سیدہ عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ عنہا بلا شبہ ایک بہترین بیوی تھیں،اپنے شوہر کی پسند و ناپسند کا خوب خیال رکھتیں اور اپنے شوہر کا ہر کام خوشی سے کرتیں، یہی وجہ ہے کہ آپ اللہ پاک کے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بھی محبوب تھیں۔چنانچہ اگر آپ بھی اپنے شوہر کی محبوب بننا چاہتی ہیں تو یہ محض حسن و جمال کے جلووں سے نہیں بلکہ سیدہ عائشہ کی سیرت پر عمل کر کے ہی ممکن ہو گا۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
[1]بخاری،2/593،حدیث:3905
[2]مواہب لدنیہ مع شرح زرقانی، 3/381، 382ملخصاً
[3]البدایۃ والنہایۃ، 3/475، 476ملخصاً
[4]مراٰۃ المناجیح،5/61
[5]مسلم،ص856، حدیث:5232
[6]ابو داود،4/402، حدیث:5040
[7]ابوداود،1/172،حدیث:388 ملخصاً
[8]مسلم، ص837، حدیث:5091
[9]مراۃ المناجیح، 6/174
[10]بخاری، 4/81، حدیث:5923
[11]مسلم،ص138،حدیث:685
[12]ابو داود،4/111،حدیث: 4189
[13]مراٰۃ المناجیح،6/162
Comments